اور تہذیب کے شایان نہیں اور اپنے برادران طریقت کے نام اور عبارت اور دوسرے نام جو نفسیات کے تحت آگئے ہیں نکال دئے جائیں۔
حاجی صاحب کا یہ مکتوب ۲۴شوال ۱۳۰۴ھ کا ہے جبکہ انوار ساطعہ دور دور پہنچ چکی تھی اور اس کتاب نے حضرت حاجی صاحب کے حلقہ کے سارے لوگوں کو دو مختلف مکتب خیال میں بانٹ دیا تھا اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی جیسے صاحب فضل و کمال اور حضرت حاجی صاحب کے ہمراز و دمساز کے خلاف ہنگامہ کھڑا کردیا تھا آخر کار حضرت گنگوہی کے ارشادات و ایماء پر حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نور اﷲ مرقدہٗ نے قلم اٹھایا اور ’’انوار ساطعہ‘‘کا تفصیلی جائزہ لیا اور کتاب و سنت کی روشنی میں ان مسائل پر روشنی ڈالی۔
۱۳۰۴ھ میں ’’البراھین القاطعۃ علی ظلام الانوار الساطعۃ‘‘نام کی ایک کتاب لکھی ،حضرت گنگوہیؒ نے اس کتاب کی طباعت و اشاعت میں بڑی دلچسپی لی اور اس کا پہلا ایڈیشن اس طور پر طبع ہوا کہ اوپر ’’انوار ساطعہ‘‘اور نیچے اس کا جواب تھا ،حضرت مولاناؒ نے ان تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جو انوار ساطعہ نے پھیلائیں ،یہ بات ضرور ہے کہ حضرت مولاناؒ کے قلم میں اکثر جگہ تیزی و شوخی آئی اور آپ نے الزامی جواب بھی دئے ’’براہین قاطعہ‘‘نے پورے ہندوستان میں وہ کام کیا جو مولانا اسماعیل شہیدؒ کی ’’تقویۃ الایمان ‘‘نے کیا تھا،اہل بدعت کے حلقوں میں اُسنے تیرو نشتر کا کام کیا۔
اس کتاب کے متعلق مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی تحریر فرماتے ہیں۔
’’کتاب براہین قاطعہ حضرت مولانامرحوم کی اہل بدعت کے لئے جس قدر سیف قاطع اور دلوں کو زخمی کرنے والی ہے اس کو ان مخالفوں کا کلیجہ ہی جانتا ہے۔
(نقش حیات ۱/۱۰۰)
اس کی بدولت کئی جگہ مناظرے ہوئے بھاولپور سے لیکر بریلی تک جہاں بھی حضرت مولانا تشریف لے گئے اس کتاب کا چرچہ اور مخالف کیمپوں میں کھلبلی نظر آئی ہر طرف سے پھر آوازیں اٹھیں اور مولوی عبدالسمیع بیدلؔ صاحب کے استاذ مولانا رحمت اﷲ کیرانوی جو دونوں حلقوں میں معتبر و مستند جانے جاتے تھے اور ان کے علم و فضل پر ہر دو مکتب خیال کے لوگ متفق تھے انھوں نے مولوی صاحب بیدلؔ کو لکھا کہ وہ جواب الجواب کی فکر نہ کریں اور اس ہنگامہ کو ہوا نہ دیں اور آپس کی خلیج کو وسیع نہ کریں ۔بیدل صاحب نے جواب پر تو اصرار کیا لیکن اس سارے طرز استدلال اور سخت ترین کلمات کو نکالنے پر تیار ہوگئے اور ۱۳۰۶ھ میں ’’انوار ساطعہ‘‘کو نظر ثانی کرکے پھر شائع کیا اور جابجا’’براہین قاطعہ‘‘کی عبارتوں کا جواب دیا لیکن اس مرتبہ وہ جارہانہ انداز نہیں تھا جو پہلے ایڈیشن میں اختیار کیا تھا لیکن اس ایڈیشن میں علمائے حرمین اور اپنے مشائخ و اساتذہ اور علمائے ہند کے حوالے اور تقریظات شامل کیں۔
’’براہین قاطعہ‘‘سے پورے ہندوستان میں ذہنی انقلاب پیدا ہوالیکن اس کے ساتھ ’’انوار ساطعہ‘‘نے دماغوں میں انتشار پیدا