کا ذکر فرمایا ہے۔
ایک جگہ تحریر فرمایا۔
’’مولانا میں حضرات سلف کی سی تواضع تھی کہ مسائل واشکالات علمیہ میں اپنے چھوٹوں سے بھی مشورہ فرماتے تھے اور چھوٹوں کے معروضات شرح صدر کے بعد قبول فرمالیتے تھے ۔(ایضا۱۲)
حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے خوان خلیل میں کئی ایسے واقعات تحریر فرمائے ہیں جن میں حضرت مولانا کے مختلف صفات حسنہ اور کمالات کاذکرکیا ہے ان واقعات میں ایک واقعہ اس طرح لکھا ہے کہ ایک جگہ تقریر کرنے تشریف لے گئے اس تقریر کے بعد ایک ایسی جگہ تقریر کا اعلان ہوگیا جہاں مخالفین بھی تھے اور ہنگامہ کا اندیشہ بھی تھا حکیم الامت وہاں تقریر پر راضی نہ ہوئے اور خلاف مصلحت سمجھ کر انکار کردیا حضرت مولانا نے ارشاد فرمایا۔
’’اگر ایسا ہوتو بھی تبلیغ حق میں ایسے امور کی پرواہ نہ کرنا چاہئے ۔‘‘
حکیم الامت فرماتے ہیں کہ مولانا کے ارشاد پر میں خاموش ہوگیا گو میری رائے اب بھی وہی تھی کہ جانا مناسب نہیں ۔
اور یہ حضرات تشریف لے گئے جب پہونچے تو رنگ بدلا ہواپایا نہ کسی نے سلام کیا نہ کلام کیا،بلکہ ایک صاحب نے اعلان کردیا کہ وعظ نہیں ہوگا اس پر ہنگامہ برپا ہوگیا اور شور و غل ہونے لگا اور قریب تھا کہ خون ہوجائے دونوں حضرات اٹھ گئے اور روانہ ہوگئے راستہ میں پولیس ملی اس نے کہا چلئے وعظ کہئے ،اس پر حکیم الامت بولے سبحان اﷲ کیا موقع پر پہنچے ہیں یہاں تو خون ہوجاتا آپ کا آنا کس مصرف کا ہوا اب وعظ نہیں ہوسکتا وعظ کیا ہوا کھیل ہوا یہ وہی بات ہوئی ؎
پس ازاں کہ من عالم بچہ کار خواہی آمد
اور وہ بات ہوئی ۔
ہماری جان گئی آپ کی ادا ٹھری
اس وقت مولانا یہ فرمارہے تھے کہ راہ حق میں ایسی کلفت بھی کیسی لذت بخش ہے۔
(خوان خلیل:۱۸)
حضرت مولانا کے اس پر عزیمت فقرہ کے نقل فرمانے کے بعد حکیم الامت حضرت تھانوی تحریر فرماتے ہیں۔
’’مقصود اس قصہ کے نقل کرنے سے مولانا کا یہ قول نقل کرنا تھا جس سے مولانا کا مذاق وأمر بالمعروف وانہ عن المنکر وَاصْبر علیٰ ما اصابک کے اتباع کا کس قدر وضوح سے ثابت ہوتا ہے جس میں اپنی ہمت کو قاصر دیکھتا تھا،آخر ضعیف و قوی اور ناقص و کامل میں فرق تو ہونا چاہئے ولنعم ما قیل فی مثل ھذا ؎
بساز و عشق را کنج سلامت خوشار سوائی کوئے ملامت
{وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَا فَسِ الْمُتَنَا فِسُوْنَ } (خوان خلیل:۲۰)