’’تم کو اپنا فخرو باعث نجات جانتا ہوں کچھ نہیں ہوں مگر اچھوں سے مربوط ہوں۔‘‘(ایضا)
-4ایک مکتوب میں اس طرح تحریر فرماتے ہیں۔
’’مقصد جملہ اشغالات و مطلب منتہی جملہ مراقبات کا وہ حضور قلب بے کیف ہے کہ حق تعالیٰ نے آپ کو نصیب فرمایا نسبت صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین یہ ہی حضور تھا۔‘‘
پھر اسی مکتوب میں صحابہ کرام کے حضور ،نیز ان کی کیفیات ،نسبت کی تفصیلات بیان فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’پس یہ نسبت یاداشت و احسان تھی کہ شمہ اس کا میرے سعید ازلی قرۃ العینین خلیل احمد کو نصیب ہوا جس پر ہزارفخروناز یہ بندہ ناساز کرکے اپنا وسیلہ قرار دیئے مطمئن بیٹھا ہے۔‘‘(ایضا)
مکاتیب میں ایک جگہ شعر بھی ہے کہ تیرے گیسئوں کا ایک بال اپنی قبر میں لیجاؤں تاکہ مجھ پر قیامت میں سایہ کرے۔
حضرت گنگوہی کے مکاتیب علیہ سے یہ چند سطریں جو آپ کی شان میں پروانہ رضا و قبولیت کا درجہ رکھتی ہیں ہدیہ ناظرین کی گئیں۔
حضرت گنگوہی کو حضرت مولانا سے جو قلبی تعلق تھا وہ حسب ذیل واقعہ سے بخوبی معلوم ہوگا۔
ایک بار کسی شخص نے حضرت گنگوہی کو خط لکھا کہ میں اس مصیبت میں گرفتار ہوں دعا فرمائیں ،اس خط کو پڑھ کر بے ساختہ فرمایا کہ!
’’یہ وہی تو ہیں جنہیں مولوی خلیل احمد سے عداوت ہے میرے دوستوں سے دشمنی رکھیں اور مجھ سے دعا کرانی چاہیں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا اگر چہ کسی کے لئے بددعا بھی نہیں کرتا۔(تذکرۃ الرشید جلددوم: ۸۳)
ایک بار آپ نے اپنا ایک خواب حضرت گنگوہی سے بیان کیا۔
’’کہ حضرت میں اعتکاف میں تھا خواب میں دیکھا کہ خربوزہ تراش رہاہوں ،اور قاشیں آپ کو دے رہا ہوں ،آپ رغبت کے ساتھ کھا رہے ہیں اور کھانے کے وقت آپ کے دہن مبارک سے جو لعاب وغیرہ گرتا ہے وہ میں اپنی زبان پر لیتا ہوں۔‘‘(ایضا۱۵۴)
حضرت گنگوہی اس خواب کو سن کر مسکرائے اور ارشاد فرمایا۔
’’تم خود سمجھتے ہوگے آخر نسبت تو ایک ہی ہے۔‘‘(ایضا۱۵۴)
ایک مرتبہ بھوپال سے ایک سوروپے مشاہرہ پر حضرت مولانا کی طلبی ہوئی تو آپ نے حضرت گنگوہی کو اس کے بارہ میں لکھا تو حضرت گنگوہی نے جواب دیا کہ۔
’’میں اپنے لوگوں کو اپنے سے جدا کرنا اور دور بھیجنا نہیں چاہتا۔‘‘(ایضا:۱۵۴)
ایک مرتبہ ارشاد فرمایا۔
’’جو میں وہ خلیل احمد‘‘
ایک خط میں حضرت مولانا کو تحریر فرمایا۔