گئے تنائج وعواقب سے بے پرواہ ہوکر انہیں سربکف اور کفن بردوش میدان انقلاب میں نکلنا پڑا، زمانے کی تاریکیاں موسم کی کالی کالی گھٹائیں، احوال کی نزاکتیں، اہل ہند بالخصوص مسلمانوںکی ناگفتہ بہ کمزوریاں رکاوٹ بن کر سامنے آئیں اور کچھ عرصہ اسی غوروخوض میں گزرا مگر پانی سر سے گزر چکا تھا اس لیے خوب سوچ سمجھ کر صرف قادر مطلق پراعتماد اور بھروسہ کرکے کام شروع کردیا۔‘‘(نقش حیات جلددوم: ۱۳۵۔۱۳۶)
لیکن پہلی جنگ عظیم کے شروع ہوتے ہی اور ترکوں کی شکست ہوتے ہی ملک کانقشہ بدل گیا اورحضرت شیخ الہند نے چند معتمد علیہ ساتھیوں اور شاگردوں کو ملک سے چلے جانے اور آزاد قبائل کوانگریزوں کے خلاف لڑنے پر تیار کرنے کاحکم دیا جن میں مولانا عبداللہ سندھی کابل گئے کابل سے انہوںنے ایک خط ریشمی پارچہ پر لکھ کر ہندوستان بھیجا مگر وہ انگریزوںکے ہاتھ لگ گیا حضرت شیخ الہند حجاز تشریف لے گئے تھے یہ وہی سفر ہے جس میں حضرت مولانا خلیل احمدصاحب نوراللہ مرقدہ حضرت شیخ الہند کے ساتھ حجاز میں رہے آپ گزشتہ صفحات میںپڑھ چکے ہیں کہ اس سفر سے پہلے مظاہرعلوم کے مہمان خانہ میں ایک طویل مشورہ ایک ہفتہ تک چلتا رہا تھا جس میں حضرت شیخ الہند ،حضرت مولانا خلیل احمدصاحب، حکیم احمدصاحب رامپوری سرپرست مدرسہ مظاہر علوم وممبر دارالعلوم دیوبند اور حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری شریک رہے، حضرت شیخ الہند اور حضرت مولانا خلیل احمدصاحب حجاز تشریف لے گئے اور ان کی غیبت میں ہندوستان کاکام حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب کے سپرد ہوا۔
مولانا عبیداللہ سندھی کے ریشمی خط کاجب انکشاف ہوگیا تو انگریزی حکومت نے داروگیر شروع کردی گرفتاریاں ہونے لگیں حضرت شیخ الہند، آزاد قبائل میں پہنچے کے لیے حجاز روانہ ہوگئے اور آخر کار حجاز میں کچھ عرصہ بعد ان کوگرفتار کرلیا گیا حضرت مولانا خلیل احمدصاحب برابر شریک رہے جس کی کچھ تفصیل اس کتاب کے گزشتہ صفحات میں آپ پڑھ چکے ہیں۔
اس تحریک میں اپنی اورحضرت مولانا خلیل احمد صاحب کی شرکت کے متعلق مولانا مدنی تحریر کرتے ہیں:
’’ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد حضرت شیخ الہند نے ایک خصوصی مجلس میں مجھ کو اور مولانا خلیل احمدصاحب کو طلب فرماکر اپنے خیالات اور عملی کاروائیوں سے مطلع فرمایا میں اس وقت تک فقط علمی جدوجہد میں مشغول تھا اگرچہ مدینہ منورہ میں اس سے پہلے جبکہ محاز سوئز کے لیے متطوعین (والنٹیروں) کو بھیجنا شروع کیا گیا تھا ترغیب جہاد پر تقریر کرنے کی نوبت آئی تھی اور اس سے متاثر ہوکر کچھ لوگ اس محاذپر جہاد کے لیے مدینہ منورہ سے گئے تھے مگراس کے علاوہ عملی جدوجہد کی نوبت نہیں آئی تھی اب حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالیٰ کے واقعات اور خیالات سن کر میں بھی متاثر ہوا اور حضرت مولانا خلیل احمدصاحب بھی۔ یہ وقت میری سیاست کی ابتداء اور بسم اللہ کا وقت ہے۔ اس کے بعد مولاناخلیل احمدصاحب جب تک حجاز میں رہے بالکل متفق اور ہمنوا رہے۔‘‘
(نقش حیات دوم: ۲۱۶)
حجاز کے قیام کے دوران حضرت شیخ الہند کو شریف مکہ نے جوانگریزوں کے نمائندہ ہونے کی وجہ سے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالیٰ اور ان کے ساتھیوں کا دشمن ہوگیا تھا گرفتار کرلیا اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحب بمبئی پہنچ کر گرفتارکرلیے گئے اور نیتی