اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
حضرت مولانا کسی زمانہ میں بھی اور کسی حال میں بھی اس کو برداشت نہ کرتے تھے کہ غیر دینی شخص دینی اور مذہبی شعور وعمل رکھنے والے پرحکومت یا ا سکی قیادت کرے یا اس کو اپنی رائے اور خیال کا پابند کرے، ہندوستان میں آپ کی زندگی ہی میں دو ایسے دور آئے جس میں مسلم رائے عامہ غیر دینی لوگوں کاحساسات وخیالات کے تابع ہوگئی آپ نے ایسے نازک دور میں بھی اپنے خیال کااظہار کیا اور اعلان کیا غیر دینی حضرات کی دینی مسائل میں قیادت کو چیلنج کیا۔ مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی اس کی تصویر کشی اس طرح کرتے ہیں:
’’جولوگ دین کی محبت سے محروم اور نصرانیت سے انس کی طرف مائل ہیں ان کی یہ حرکت کہ اپنی ہر تجویز کو دین کی چادر پہنانے کی کوشش کرتے ہیں آپ کو ہمیشہ ناپسند ہوئی کہ سوڈا واٹر کی اٹھان یا پھونس کی آگ کی طرح دبنے والا ہوتاہے چنانچہ بارہا تجربہ ہوا کہ وہ لوگ کل جس چیز کو اپنی زبانوں سے فرض کہہ رہے تھے آج وہی اس کو حرام کہنے لگے ا س لیے آپ نے کسی شورش کے وقت بھی حقیقت الامر اور اعتدال سے باہر قدم نہیں رکھا خود کسی کی پھٹی چادر میں پاؤں ڈالنا بھی پسند نہ کیا کہ نقار خانہ میں طوطی کی آواز تھی مگر کلمۃ الحق کاوقت آیا تو تحریر میں اظہار حق سے چوکے بھی نہیں خلافت کاشور جس زمانہ میں ہوا اور مولوی عبدالاحد دہلوی کے جنازہ میں بے تکی مزاحمت ہوئی تو آپ کو بہت صدمہ ہوا کہ مسلمان میت کی توین وہتک کہاں جائز ہے اسی طرح جس وقت گائے کے ذبح کا ترک شروع ہوا اور بہتیرے مولویوں نے بھی اس کو مباح قررار دے کر بمصالح دینیہ ترجیح ترک پر فتوی دیدئیے تو آپ نے سکوت پسند نہیں کیا اور شعار اسلام ہونے کے لحاظ سے اس کی ضرورت علما وعملا محقق فرمائی اس وقت آپ پر سب وشتم ضرور ہوا مگر چند ہی روز بعد اس کا نتیجہ دیکھ کر ممانعت کا فتوی دینے والے خود فرضیت کا فتویٰ دینے لگے غرض اسی اصول کے ہمیشہ آپ پابند رہے کہ ہرکارے وہرمردے دنیوی ضروریات پر جس طرح اول نظر لیڈران قوم کی جائے گی اسی طرح دینی ضروریات پر اول نگاہ پڑنا علماء ومشائخ کا منصب ہے کہ لیڈران قوم کا فتویٰ جس سے وہ علماء کو متفق کرنے کی کوشش کریں کسی طرح دین نہیں ہوسکتا ایک بار آپ نے افسوس کے ساتھ فرمایا:’’مسلمان اس شورش میں ہلاک ہوجائیں گے کہ لیڈران کو کرلیا آگے اور مولوی ہولیے ان کے پیچھے۔‘‘
(تذکرۃ الخلیل:۳۲۶)
حضرت مولاناکے اس طریقہ فکر اور اصابت رائے کی تصدیق ماضی قریب کے ان ہنگاموں اور انقلابوں اور ان کے پیچھے مسلمانوں کی جانی ومالی عزت وآبرو کے خسارہ سے ہوتی ہے جنہوں نے ملک کے ٹکڑے کئے دلوںکے ٹکڑے کیے اور عزت وآبرو کوپارہ پارہ کیا جس کی کراہ اور ٹیس مسلمان قوم مدت تک محسوس کرتی رہے گی۔
علماء نے جب بھی غیر علماء کی قیادت کو تسلیم کیا اور امت مسلمہ نے جب بھی غیر مسلم قائدین کے ہاتھوں میں اپنی زمام قیادت دی تو دنیاوی ودینی خسران سے دوچار ہوئے۔
زائرین حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے