اگر مسلمانوں میں جذبہ جہاد نہ ہوتا تو ہماری مٹھی بھر فوج اتنی بڑی فوج کا مقابلہ ہرگز نہ کر سکتی۔ ہماری بقاء کا دارومدار جذبہ جہاد ہی میں ہے۔ مگر مرزائی اسی درخت کی جڑوں پر تیشہ چلا رہے ہیں۔ ربوہ میں یہ ہی کچھ سکھایا جاتا ہے۔ یہ ربوہ جو ہرآزادی سلب کرنے کا کارخانہ ہے۔
اﷲتعالیٰ کلام پاک میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’کتب علیکم القتال وہوکرہ لکم عسیٰ ان تکرہوا شیئا وھو خیرلکم‘‘ {تم پر (کفار سے) قتال فرض کیاگیا ہے اور وہ تمہیں ناپسند ہے۔ قریب ہے جس چیز کو تم ناپسند کرو وہ بہتر ہو تمہارے لئے۔}
یہاں اﷲتعالیٰ نے صاف صاف جہاد بالسیف یعنی لڑائی کا حکم دیا ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ جہاد صرف کفار کے ساتھ ہے۔ جو حملہ آور ہوں۔ اگر یہ ہی تسلیم کر لیا جاوے تو کیا انگریز حملہ آور نہ تھا؟ اس نے مسلمانوں سے ملک ہندوستان بزور شمشیر نہیں چھینا؟ کیا ایسی کوئی حدیث مرزائی پیش کر سکتے ہیں کہ غیرمسلموں نے مسلمانوں سے کوئی ملک چھینا ہو تو حضور علیہ السلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہو کہ غیر مسلم کی حکومت رحمت الٰہی سمجھ کر تسلیم کر لی جاوے۔ اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا جرم ہے۔ بلکہ شریعت حقہ نے تو بیٹھ رہنے کو جرم قرار دیا ہے۔
اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’قاتلوہم حتیٰ لاتکون فتنۃ ویکون الدین کلہ ﷲ‘‘ {لڑو ان کافروں سے یہاںتک کہ مکمل اﷲ کی حکومت قائم ہوجاوے۔}
حضورﷺ نے فرمایا: ’’الجہاد ماض الیٰ یوم القیامۃ‘‘ {جہاد قرب قیامت تک جاری رہے گا۔} خدارا سوچیں جس جہاد کی تاکید قرآن وحدیث میں آئی ہو۔ سورۃ انفال اور توبہ پوری کی پوری جہاد کے بارے میں اتری ہیں۔ اس جہاد کو قادیانی کذاب بیہودہ بات کہہ رہا ہے۔ کیا یہ قرآن مجید کی تکذیب نہیں؟ کیا جو قرآن مجید کی تکذیب کرے وہ دائرہ اسلام میں رہ سکتا ہے؟ بے شک نہیں رہ سکتا۔ قادیانی اس سے بخوبی واقف تھا۔ مگر دنیا کے لالچ نے اندھا کر دیا۔ ایمان چند ٹکوں میںفروخت کر دیا۔ مہدیت ونبوت کی آڑا میں انگریزوں کی جاسوسی تنظیم کو مضبوط کیا۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں ؎
شیخ اوکرد فرنگی را مرید
گرچہ گوید از مقام بایزید
وہ نبوت ہے مسلمان کے لئے برگ حشیش
جس نبوت میں نہیں قوت وشوکت کا پیام