قولنج زخیری مرزاقادیانی ایک اور مرض میں بھی مبتلا تھے۔ فرماتے ہیں: ’’ایک مرتبہ میں قولنج زخیری سے سخت بیمار ہوا اور سولہ دن تک پاخانہ کی راہ سے خون آتا رہا اور سخت درد تھا جو بیان سے باہر ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۳۴، خزائن ج۲۲ ص۲۴۶)
مرزاقادیانی دوسروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ فلاں بیماری میں مبتلا ہوگیا۔ فلاں ڈرگیا۔ فلاں کا لڑکا بیمار ہو یا فوت ہوگیا۔ لہٰذا وہ عذاب میں مبتلا ہوگیا۔ کیونکہ وہ ہمیں نہیں مانتا۔ اس قسم کی بہت سی عبارتیں آپ کو ملیں گی۔ کیا یہ بیماریاں جو اس قدر شدید ہیں۔ مراق، قولنج، سلسل بول، اسہال وغیرہ۔ ان کو عذاب نہ کہا جاوے گا؟ بلکہ مرزاقادیانی دنیا کی پوری زندگی میں جھوٹے دعوؤں کی بناء پر مسلسل معذب رہے۔ بلکہ یہ زندگی تو موت سے بھی زیادہ مصیبت تھی۔ مگر کیا کیا جاوے۔ اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا۔
مرغوب اشیاء
’’مرزاقادیانی کو تیتر، بٹیر، مرغ کا گوشت بہت پسند تھا۔ پلاؤ، فیرینی، میٹھے چاول، نرم نرم بھی شوق سے تناول فرمایا کرتے تھے۔ مشک عنبر، روغن بادام، مروارید، یاقوت، مرجان وغیرہ بھی زیراستعمال رہتے تھے۔‘‘ (سیرۃ المہدی ج۱ ص۵۰،۵۱)
آپ کو یاد ہوگا ہم پہلے علاج مراق میں بوعلی سینا سے نقل کر آئے ہیں کہ ایک مراقی کے لئے ایسی خوشبوئیں، دیگر مقوی اشیائ، جوزود ہضم ہوں استعمال کرنے ضروری ہیں۔ چہل قدمی بھی ضرور کرنی چاہئے۔ یہ سب علاج معالجہ مرزاقادیانی اس مراق نامراد سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کرتے تھے۔ اب بھی مرزائیوں کو آپ کے مراق میں شبہ ہو تو ہو۔ وہ خود ہی مرزاقادیانی کے مکذب ٹھہریں گے۔
ایسی باتیں ہم بیان کرتے ہیں تو مرزائی چڑتے ہیں۔ مجھے تو ان کی اس حرکت پر افسوس ہوتا ہے کیا ہم ان کے نبی کی احادیث وشمائل بیان کریں تو وہ ناراض ہوں۔ کیا ان کو اپنے نبی سے محبت نہیں ہے؟
ہمارے نبی علیہ السلام کے شمائل واحادیث آپ دن رات ہمیں سنائیں ہم ہمہ تن گوش ہوکر اپنے محبوب پیغمبر علیہ السلام کے شمائل واحادیث بنیں گے۔ بلکہ سننا ثواب سمجھتے ہیں۔ افسوس کہ تم ناراض ہو۔ یہ کیسی محبت؟ ’’بئس ما یأمرکم بہ ایمانکم‘‘