نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے؟ اگر کہو کہ اس کا نام (صرف) محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب کے نہیں۔ مگر نبوت کا معنی اظہار غیب ہے۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۰۹)
پہلے مرزاقادیانی نے سائل کو جو جواب دیا اس میں صاف اقرار کیا کہ مجھے محدث ہونے کا دعویٰ ہے۔ نبی ہونے کا دعویٰ نہیں ہے۔ مگر ایک غلطی کا ازالہ میں بالکل اس کے خلاف لکھتے ہیں۔ یعنی مرزاقادیانی صرف محدث نہیں ہیں۔ کیونکہ تحدیث کے معنی اظہار غیب کے نہیں ہیں۔ بلکہ اظہار غیب نبوت میں ہوتا ہے۔ یعنی میں صرف محدث نہیں ہوں بلکہ نبی ہوں۔
مرزاقادیانی کا نبوت تشریعی سے انکار
’’اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے۔ مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔ پس اس بناء پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ ص۲۰، خزائن ج۲۰ ص۴۱۲)
اس کے خلاف تشریعی نبوت کا دعویٰ
’’اگر کہو صاحب شریعت افتراء کر کے ہلاک ہوتا ہے نہ کہ ہر ایک مفتری، تو اوّل تو یہ دعویٰ بے دلیل ہے۔ خدا نے افتراء کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی۔ ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ چند امرونہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعۃ ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵)
پہلے تو مرزاقادیانی نے تشریعی نبوت کا انکار کیا کہ میں تشریعی نبی نہیں۔ آپ کے بعد کوئی تشریعی نبی نہیں آسکتا۔ اب شریعت کی تعریف کر کے خود دعویٰ کر دیا کہ چونکہ میری وحی میں امر اور نہی ہے۔ لہٰذا میں تشریعی نبی ہوں۔ میرے مخالف ملزم ہیں۔
تضاد نمبر:۱
’’ابتداء سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعویٰ کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہوسکتا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۳۰، خزائن ج۱۵ ص۴۳۲)
تضاد نمبر:2 ’’مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا نہیں جو ہماری ایمانیات کی جز یا ہمارے دین کے