اسی شام گاڑی میں معہ دو تین سو علماء و مشائخ وغیرہ ہمراہیاں کے تشریف فرمائے لاہور ہوئے۔
حضرت ممدوح کی زیارت اور استقبال کے لیے اس شوق و ولولہ سے لوگ گئے کہ اسٹیشن اور بادامی باغ پر شانہ سے شانہ چھلتا تھا۔ شوق دیدار سے لوگ دوڑتے اور ایک پر گرتے چلے جاتے تھے۔ حضرت ممدوح اسٹیشن سے باہر ایک باغ میں چند منٹ استراحت فرما کر محمدن ہال موچی دروازہ میں مقیم ہوئے۔
لاہور کے علماء کرام جو آپ کی تشریف آوری کے منتظر تھے۔ آپ کے ساتھ شامل ہوگئے نیز اور بھی علماء اور مشائخ و معززین اسلام، پشاور، پنڈی، جہلم، سیالکوٹ، ملتان، ڈیرہ جات، گجرات، گوجرانوالہ، امرتسر وغیرہ وغیرہ قصبات سے بغرض شمولیت مجلس مناظرہ مصارف کثیرہ کے متحمل ہوکر آپہنچے۔ مرزا کے لاہوری پیرئوں نے مرزا کے نام خطوط ضروری وتار روانہ کیے۔ بلکہ بعض گرم جوش چیلے نہایت مضطرب حالت میں قادیاں پہنچے۔ اور ہر چند اپنے پیر مرشد مرزا کو لاہور لانے کے لیے منت و سماجت کی۔ پائوں پڑے۔ مگر دلی کمزوری نے ان (مرزا صاحب) کو اپنے ضدی پیروئوں کی طرف مائل نہ کیا اور بیت الفکر میں ہی داخل رہا۔
حضرت پیر صاحب ۲۴؍اگست ۱۹۰۰ء سے آج تک لاہور میں رونق افروز ہیں۔ اور مرزا کا ہر ایک ٹرین میں بڑے شوق سے اس وقت تک انتظار کیا جاتا ہے۔ مگر ادھر سے صدائے برنخواست کا معاملہ ہے۔ یہ حقیقت میں خود مرزا صاحب کے اپنے قول کے مطابق ایک الٰہی عظمت و جلال کا کھلا کھلا نشان تھا جس نے مرزا کی جھوٹی اور بیجا شیخی کو کچل ڈالا۔ اور آپ کے حواس کی وہ گت ہوئی کہ مقابلہ و مباحثہ لاہور تو درکنار آپ کو سوائے اپنے بیت الفکر کے تمام دنیا ومافیہا کی خبر نہ رہی۔ وقذف فی قلوبھم الرعبکا مضمون دنیا کے صفحہ پر معرض ظہور میں آیا برخلاف اس کے حضور پرنور حضرت پیر صاحب ممدوح کے دست پر خداوند کریم نے وہ نشان ظاہر کر دیا وکان حقا علینا نصر المومنین ہیں۔ جس کا وعدہ دیا گیا تھا۔ خداوند عالم حضرت محمد رسول اللہﷺ کی مقدس اور پاک ذات پر نبوت اور رسالت کے تمام مدارج ختم کر دیے ہیں۔ جس طرح سے سینکڑوں جھوٹے رسولوں کو اپنی غیرت سے اور خود ان کی اپنے کفر و غرور سے انہیں ذلیل و خوار کر دیا ہے۔ ایسا ہی اس نے مرزا کی جھوٹی مہدویت اور رسالت مسیحیت کا بھی خاتمہ کر دیا۔ اور آج دنیا پر بخوبی روشن ہوگیا کہ سیدنا و مولانا محمد رسول اللہﷺ کی مخصوصہ شناخت اور مفوضہ مراتب کے اندر بیجا مداخلت کرنے والے اسی طرح علی رؤس الاشتہاد روسیاہ ہوتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے خود ذبح ہو جاتا ہے کیا غور و عبرت کا مقام نہیں ہے کہ مرزا نے بلا کسی تحریک کے خود بخود