پھر اس کے متصل ہی ص۵ پر لکھتے ہیں: ’’یہ بھی یاد رہے آپ کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔ جن پیشین گوئیوں کا اپنی ذات کی نسبت توریت میں پایا جانا آپ نے بیان فرمایا ہے۔ ان کتابوں میں ان کا نام ونشان نہیں پایا جاتا۔ بلکہ وہ اوروں کے حق میں تھیں۔ جو آپ کے تولد سے پہلے پوری ہوگئیں اور نہایت شرم کی بات یہ ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم جو انجیل کا مغز کہلاتی ے۔ یہودیوں کی کتاب طالمود سے چرا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا کہ گویا میری تعلیم ہے۔ لیکن جیسے یہ چوری پکڑی گئی۔ عیسائی بہت شرمندہ ہیں۔ آپ نے یہ حرکت شاید اس لئے کی ہوگی کہ کسی عمدہ تعلیم کا نمونہ دکھلا کر رسوخ حاصل کریں۔ لیکن آپ کی اس بے جا حرکت سے عیسائیوں کی سخت روسیاہی ہوئی۔‘‘
پھر چند سطور کے بعد لکھتا ہے: ’’بہرحال آپ علمی وعملی قویٰ میں بہت کچے تھے۔ اس وجہ سے آپ ایک مرتبہ شیطان کے پیچھے پیچھے چلے گئے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵،۶، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹،۲۹۰)
’’عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے۔ اگرچہ قرآن، انجیل کی طرح شراب حلال نہیں ٹھہراتا۔‘‘
(کشتی نوح ص۶۵ حاشیہ، خزائن ج۱۹ ص۷۱)
’’میرے نزدیک مسیح شراب سے پرہیز رکھنے والا نہیں تھا۔‘‘ (ریویو ج۱ ص۱۲۴، سن ۱۹۰۲ئ)
’’مسیح کا چال چلن کیا تھا۔ ایک کھاؤ پیو، شرابی، نہ زاہد نہ عابد، نہ حق کا پرستار، متکبر، خود بیں، خدائی کا دعویٰ کرنے والا۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۳ ص۲۱تا۲۲)
مندرجہ بالا عبارتیں غور سے پڑھیں اور مرزاقادیانی کے متعلق اندازہ لگائیں۔ آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کس قدر عداوت رکھتے ہیں اور کس طرح آپ کی کھلی توہین پر اتر آئے ہیں۔ شاید اپنی حرکات پر پردہ ڈالنا مقصود ہے۔ اب مرزاقادیانی کی چند گوہر افشانیاں اور ملاحظہ کریں۔
معجزات پر اعتراض
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ممکن ہے آپ نے معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شب کور وغیرہ کو اچھا کیا ہو یا کسی اور ایسی بیماری کا علاج کیا ہو۔ مگر آپ کی بدقسمتی سے اسی زمانہ میں ایک تالاب بھی موجود تھا۔ جس سے بڑے بڑے نشانات ظاہر ہوتے تھے۔ خیال ہوسکتا ہے کہ اس تالاب کی مٹی آپ بھی استعمال کرتے ہوں گے۔ اسی تالاب