صبح صادق سے شروع ہوتا ہے۔ شمسی حساب میں طلوع آفتاب سے شروع ہوتا ہے۔ لہٰذا بعد از دوپہر کسی طرح بھی چوتھا گھنٹہ دن کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔
پھر ہو بھی تو ہمیں اس سے غرض نہیں ہم تو صرف یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ امام الزمان کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ صفر دوسرا مہینہ ہے نہ کہ چوتھا۔ بدھ، ہفتہ کا پانچواں دن ہے نہ کہ چوتھا۔ صرف چہار شنبہ کے لفظ کو لے کر چوتھا دن بنادینا یہ صرف مرزاقادیانی کی ہی علمیت اور آگاہی کا کرشمہ ہے۔
تاریخی جھوٹ
اب آپ مرزاقادیانی کا ایک تاریخی جھوٹ ملاحظہ فرمالیں۔ تاکہ علمی وسعت میں کسی طرح کا شک شبہ باقی نہ رہے۔
مرزاقادیانی نے فرمایا کہ: ’’میں نے دیکھا کہ زارروس کا سونٹا میرے ہاتھ میں آگیا ہے۔ وہ بڑا لمبا اور خوبصورت ہے۔ پھر میں نے غور سے دیکھا تو وہ بندوق ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بندوق ہے۔ بلکہ اس میں پوشیدہ نالیاں بھی ہیں۔ گویا بظاہر سونٹا معلوم ہوتا ہے اور وہ بندوق بھی ہے اور پھر دیکھا کہ خوارزم بادشاہ جو بوعلی سینا کے وقت میں تھا۔ ان کی تیرکمان میرے ہاتھ میں ہے۔ بو علی سینا بھی میرے پاس کھڑا ہے اور اس تیرکمان سے ایک شیر کو بھی شکار کیا۔‘‘
(تذکرہ ص۴۵۸ طبع سوم)
چونکہ مرزاقادیانی نے تصریح فرمائی ہے کہ: ’’وہ خوارزم بادشاہ جو بوعلی سینا کے وقت میں تھا۔‘‘ اب تاریخی اعتبار سے دیکھو تو تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بوعلی سینا ۴۲۸ھ میں مرچکا تھا اور خوارزم شاہی سلطنت ۴۹۰ھ سے شروع ہوکر ۶۲۸ھ پر ختم ہوجاتی ہے۔
شاید مرزاقادیانی نے بوعلی سینا کو دوبارہ زندہ کر لیا ہو یا ہوسکتا ہے خوارزم بادشاہ کو اس کے پیدا ہونے سے ۶۲سال قبل ہی تخت شاہی پر بٹھا دیا ہو۔
یہ ہے مرزاقادیانی کی آگاہی اور یہ ہے دعویٰ کہ میں امام الزمان ہوں۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ امام الزمان کے لئے تمام علوم میں دسترس کامل ہونی چاہئے۔ غالباً مرزاقادیانی پر یہ کشف کسی شیطان نامراد نے دھوکہ دینے کے لئے کیا ہوگا تاکہ روسیاہی نصیب ہو۔ تاہم مرزاقادیانی کے حواری کسی طرح یہ نہ مانیں گے۔ چاہے منوں سیاہی تاریخ نے ان کے چہرہ پر مل دی ہو۔ مگر وہ تو چودھویں کا چاند ہی کہیں گے؟ (برعکس نام نہادہ زندگی کافور)