جیسا کہ ایک نادان ولی نے بادشاہ کے روبرو ہنسی کرائی تھی۔ قصہ یوں ہے کہ کسی شہر میں ایک زاہد تھا۔ جو نیک بخت اور متقی تھا۔ مگر علم سے بے بہرہ تھا اور بادشاہ کو اس پر اعتقاد تھا اور وزیر بوجہ اس کی بے علمی کے اس کا معتقد نہیں تھا۔
ایک مرتبہ وزیر اور بادشاہ دونوں اس کے ملنے کے لئے گئے اور اس نے محض فضولی کی راہ سے اسلامی تاریخ میں دخل دے کر بادشاہ کو کہا: ’’اسکندر رومی بھی اس امت میں بڑا بادشاہ گزرا ہے۔ تب وزیر کو نکتہ چینی کا موقعہ ملا اور فی الفور کہنے لگا کہ دیکھئے۔ حضور فقیر صاحب کو علاوہ کمالات ولایت کے تاریخ دانی میں بھی بہت کچھ دخل ہے۔‘‘
سو امام الزمان کو مخالفوں اور عام سائلوں کے مقابل پر اس قدر الہام کی ضرورت نہیں۔ جس قدر علمی قوت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ شریعت پر ہر قسم کے اعتراض کرنے والے ہوتے ہیں۔ طبابت کی رو سے بھی ہیئت کے رو سے بھی، طبعی کے رو سے بھی، جغرافیہ کے رو سے بھی اور کتب مسلمہ اسلام کے رو سے بھی اور عقلی بنا پر بھی اور نقلی بنا پر بھی۔
یہ ہے مرزاقادیانی کا معیار علمی امام الزمان کے لئے اور اسی کتاب میں آپ نے دعویٰ کیاہے کہ: ’’میں امام الزمان ہوں۔‘‘ اب آئندہ کچھ تاریخی واقعات بزبان مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ تاکہ معلوم ہو جائے کہ مرزاقادیانی کس قدر تاریخی معلومات رکھتے ہیں اور امام الزمان ہونے کے دعوے میں کس قدر سچے ہیں۔
(پیغام صلح ص۳۸، خزائن ج۲۳ ص۴۶۵) پر مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’تاریخ کو دیکھو کہ آنحضرتﷺ وہی ایک یتیم لڑکا تھا جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہوگیا۔‘‘
کیا کوئی مرزائی کسی مسلمہ کتاب تاریخ اسلام یا حدیث سے یہ ثابت کرے گا کہ حضورﷺ کے والد ماجد آپ کی پیدائش کے بعد رحلت فرماگئے تھے؟ ہر طالب علم جو تاریخ سے بلکہ اسلام سے کچھ بھی مس رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ حضورﷺ کے والد ماجد آپﷺ کی پیدائش سے پہلے ہی رحلت فرماگئے تھے۔
کیا امام الزمان کی مثال اسی فقیر والی نہ ہوئی؟ جو مرزاقادیانی نے بیان کی ہے۔ لیجئے مزید علمی جواہر پارے۔
(چشمۂ معرفت ص۲۸۶، خزائن ج۲۳ ص۲۹۹) پر: ’’تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے (یعنی آنحضرتﷺ) کے گھر گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہوگئے۔‘‘