چوتھا… ڈاکٹر ڈوئی کے اندر ایسی کیا صفت ہے؟ اور اس کے عقائد میں کیا جادو ہے۔ جس کے اثر سے اتنے آدمی اس کے گرد لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اس کے مرید ایسے خوش اعتقاد ہیں۔ کہ اپنی آمدنی کا عشر ہمیشہ خندہ پیشانی سے ادا کرکے اس کی سخت قواعد کی پوری تعمیل کرنے اور اس کے جوش انگیز وعظ دل لگا کر سنتے ہیں۔ اور اپنی تندرستی اور آسودگی اس کی دعاء کی برکت سے سمجھتے ہیں۔ خواہ یہ دعا فی الحقیقت ان کے واسطے کی جائے یا ان کا صرف نام دعا کی مشین میں چھپ جائے۔ ایسی کارروائیوں سے ہمیں خواہ مخواہ بت پرستوں کا زمانہ آ جاتا ہے۔
اڈیٹر… ڈاکٹر ڈوئی کی مشین ایک زبردست آلہ ہے۔ جب کبھی اس کا کوئی بیمار مزید صحت کا خواستگار ہوتا ہے۔ تو وہ صرف خط میں لکھ دیتا ہے کہ میں بیمار ہوں۔ اور آپ کی دعا چاہتا ہوں۔ جب نبی صاحب کو فرصت ہوتی ہے۔ تو وہ ایسے خطوط کی ٹوکری پر نظر ڈالتا ہے۔ اور ہر خط کو ایک منٹ کے لیے اوپر اٹھاتا ہے اور دعا پڑھتا ہے۔ پھر وہ خط کو ایک مشین میں جس میں زہر سٹامپ لگی ہوئی ہے ڈال دیتا ہے۔ اور اپنے ہاتھ کے انگوٹھے سے ہتھ کو گھماتا ہے۔ جس سے اس کے خط پر یہ الفاظ چھپ جاتے ہیں کہ تمہارے لیے دعا مانگی گئی۔ بیمار اسی وقت اپنی صحت تصور کرنے لگتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر ڈوئی کے لیے ایک بدقسمتی یہ ہے کہ بعض اوقات راسخ الاعتقاد مریدوں کو بھی صحت نہیں ہوتی۔
ایک شخص… تعجب ہے کہ وہ مرید بد اعتقاد ہو کر اکھڑتے نہیں۔ یہ ہندوستانی جاہل اور پنجابی ڈھگے (بیل) تو ہیں نہیں یورپ کے تعلیم یافتہ ہیں۔
اڈیٹر… مگر یہ ایسا چالاک اور فطرتی شخص ہے کہ اپنی ناکامی کو بھی کامیابی کے پیرایہ میں دکھاتا ہے۔ ایک دفعہ اس کی حقیقی بیٹی کوئی چیز سپرٹ کے چولہے پر گرم کر رہی تھی۔ کچھ بھول ہوگئی۔ تو بے رحم والد نے تاکیدی حکم دے دیا کہ اسی سپرٹ سے اسے جلا دیا جائے۔ وہ جل کر اسی روز مر گئی۔ اس کی نافرمانی سے مریدوں کو عبرت ہوئی۔ اس نے کہا کہ بعد سزا دہی کے میں نے اور اس کے تمام بزرگوں نے اس کی جان بخشی کے لیے سفارش کی۔ لیکن قبول نہ ہوئی۔ شہرجیحوں میں طبیب اور شراب خانہ اور دواخانہ کا نام تک نہیں۔ یہاں تک کہ سوڈا واٹر بھی نہیں مل سکتا۔ تاہم جعلی پیغمبر کا رسوخ پھیلا ہوا ہے۔ اور شہر معمولی رفتار سے ترقی کرتا جاتا ہے۔ اس شہر میں لیس کی بڑی تجارت ہے۔ اس لیے کہ ڈوئی بڑا دور اندیش تاجر ہے۔ اور ایسا نبی ہے کہ اپنے ذاتی فائدہ کو پہلے تاڑ لیتا ہے۔ جاننے والے کہتے ہیں کہ اس کی کامیابی فصاحت اور مضبوطی دلائل پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس گرم جوشی اور کشش پر ہے۔ جو سننے والے کو اس کی صورت دیکھتے ہی پیدا ہوتی ہے جب وہ بولتا