اے جان غم فراق میں میں زہر کھا مروں
اس کے سوا نہیں کوئی تدبیر دوسری
غرض بڑی سوزشیں غم واند وہ کے ساتھ میت اٹھائی گئی۔ اور مر گھٹ میں صندل کے ڈھیر میں رکھ کر آگ لگا دی گئی۔ اور باہم گفتگو شروع ہوئی۔
پہلا… اس میں تو کلام نہیں کہ مرزا قادیانی کا الہام تھا۔ اس قتل میں اس کی سازش ہے۔ عام مسلمانوں کو بھی مقتول کی بدزبانی کا سخت رنج تھا۔ عجب نہیں کہ وہ بھی اس مشورہ میں شامل ہوں۔
دوسرا… بھائی مرزا اور مسلمانوں پر ہی کیا حصر ہے۔ ہندو، برہمو، عیسائی، سکھ بھی کون سے اس کی تیغ زبان کے زخم سے بچے تھے۔ سب ناراض ہیں۔ خوش کون تھا؟
آریہ… (جوش کے لہجے میں) مسلمانوں کے جس قدر لیڈر (رہنما) ہیں ان سب کو جام شہادت پلایا جائے۔ تو سہی۔
مسلمان… بھائی! مسلمانوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ مقتول نے اپنی بے خبری اور زبان درازی سے مذہبی اور قومی وکیل بن کر سالہا سال دل کھول کر اسلام اور اس کے ہادیﷺ کو بُرا بھلا کہا۔ اور براہین احمدیہ کے جواب میں چند کتابیں جو فقط بد کلامی اور بے تہذیبی سے پُر ہیں اور بڑا حصہ ان کا عیسائی متعصبوں کی تحریرات سے انتخاب ہوا ہے ادھر ادھر سے اکٹھا کرکے چھپوا کر شائع کرائی ہیں۔ اور عام جلسوں میں زبانی تقریروں میں بھی اسلام اور بانی اسلامﷺ کو گالیاں سنائی ہیں۔ مسلمانوں کا دل دکھایا ہے۔ تو ان سے اور مذہب والے کون خوش ہیں۔ وہ (مقتول) جوان چلتا پھرتا منہ پھٹ زبان دراز آدمی تھا۔ پنڈت مقتول سے جیسے کہ مسلمان آزار رسیدہ اور ناخوش تھے ویسے ہی ہندو بھی تھے۔ ممکن ہے کوئی ہندو ہی اس کا قاتل ہو۔ مذہبی جوش سب قوم میں ہے۔ یہ (مقتول) ہندوئوں کے بزرگوں کو بھی پانی پی پی کر کوستا تھا۔ جیسا کہ اوروں کے بزرگوں کو۔
آریہ… بھائی! تمہارے ساتھ ہماری گفتگو نہیں ہے براہین احمدیہ کا جواب پنڈت لیکھرام نے سخت دیا تو کیا غضب کیا؟ اس نے بھی کتاب مذکور اور دیگر رسائل میں ہندوئوں کو کوسنا اور ان کی بہو بیٹیوں کو گالی دینا۔ اور اپنے الہامات میں ان کو دھمکانا اور الہامی قتل سے ڈرانا اور ان کے معبودوں کو بُرا کہنا شروع کیا تھا۔
کلوخ انداز را پاداش سنگ ست
مسلمان… صاحب اس کا تو ہم کو بھی اعتراف ہے۔ مرزا قادیانی کی بد زبانی اس بد گوئی کی علت