سے پہلے دم نکل گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے مقتول کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا۔ اور نتیجہ پولیس میں بھیج کر لاش ورثاء مقتول کو دی گئی۔
آریوں نے مقتول کے حسب دستور تجہیز و تکفین کا سامان کیا۔ گوجرانوالہ و امرتسر وغیرہ کے آریہ بھی آگئے تھے۔ بڑے دھوم دھام سے ارتھی نکالی گئی۔
پولیس کی تفتیش اور تلاش سے قاتل کا پتہ یا سراغ نہیں لگا۔
لوگوں کے دل پر اس ناگہانی موت کا سخت اثر ہوا۔ ہر ایک شخص کی آنکھ سے آنسو جاری ہچکی طاری ہوئی۔
پہلا… اگر پیر نود سالہ بمیرد عجبی نیست۔ این ماتم سخت ست کہ گوئند جواں مرد۔
دوسرا… بھائیو! اس دنیا کے لیے بغض و عداوت حسد و کینہ سے تو تو میں میں کرتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ دنیا چند نفس ہے اس کا اعتبار کیا ہے ایک قدم اٹھایا۔ دوسرے کا بھروسہ نہیں۔ یہ چل چلائو لگی ہوئی ہے۔ کل شام پنڈت لیکھرام بازار میں پھرتا تھا۔ اس کو خبر تھی کہ میں رات کو مر جائوں گا۔ آج اس کو پھوکنے کے لیے جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں خاک کی ڈھیر کے سوا نشان بھی نہ ملے گا۔ پھر وہ بھی نہیں۔
افسوس کہ عمر رفت ہوشیاری ہست
در واکہ خیال خویشتن واری ہست
فغاں کہ قافلہ عمر رفت نیم قدم
طریق راست نہ پیمود نفس کامل
تیسرا… دنیا کے بھی کارخانے ہیں۔ ایک آتا ہے ایک جاتا ہے کہیں شادی ہے کہیں غم ہے کس کس کو روئیں اور کس کس کا غم کریں۔ آخر سب کے واسطے ایک روز یہ دن درپیش ہے۔
کسی کی مرگ پر اے دل نہ کیجیے چشم تر ہرگز
بہت سا روئے اس پر جو اس جینے پہ مرتے ہیں
چوتھا… آدمی اپنی آن کا پورا تھا۔ کسی سے دبکے نہیں چلا۔پانچواں… جب ہی تو یہ روزبد دیکھا۔ اکثر لوگ اسی وجہ سے اس کے دشمن ہوگئے۔ خصوص غیر مذہب والے۔ منہ پھٹ تو تھا ہی۔ جو زبان پر آیا۔ بک دیا۔ تہذیب کلام یا زبان کو لگام تو تھا نہیں۔
چھٹا… ذاتی عداوت تو کسی سے تھی نہیں۔ مذہبی جوش میں ہر ایک سے اڑ جاتا تھا۔ اس واسطے