تو مجھے کچھ ڈرایا اور دھمکایا تاکہ میں اپنی رائے ظاہر نہ کروں۔ مگر میرے دیگر ہم خیال احباب نے اس بات پر زور دیا۔ لا تلبسو الحق بالباطل وتکتموا الحق وانتم تعلمون۔
دوست مرزائی… مناسب نہیں کہ آپ مرزا صاحب یا مرزا صاحب کے خدام کامقابلہ کریں۔ جس وقت آپ اس مقابلہ میں پھنس جائیں گے۔ اس وقت آپ کے تماشائی یار سب چلتے بنیں گے۔ کیونکہ یہ راستہ بڑا سخت راستہ ہے۔ یہ (مرزا صاحب) وہ شخص ہے جو کہتا ہے کر دکھاتا ہے۔ میں آپ کو مکرر کہتا ہوں۔ کہ آپ اوپن لیٹر کو بند رکھیں۔ اور اس راہ میں قدم مارنے کی جرأت نہ کریں۔
(میں) اپنے محترم دوست اور کل ایسے احباب کی خدمت میں جو مرزائی ہوگئے ہیں۔ اور مجھے ان سے شرف نیاز مندی حاصل ہے عرض کرتا ہوں کہ اس رسالہ دافع البلاء پر اوپن لیٹر لکھنے سے میرا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ مرزا صاحب سے یا ان کے خدام سے مقابلہ کروں میں نے جو کچھ اس خط میں عرض کیا ہے۔ اس رسالہ کے مضمون پر یا اس تعلیم پر عرض کیا ہے۔ جو اس رسالہ میں ہے۔ مثلاً۔
(یہ رسالہ) سکھاتا ہے کہ انسان کے بیٹے کو ابن اللہ کہو۔
(میں) لکھتا ہوں۔ اسلام اس کے برخلاف یہ سکھاتا ہے کہ اللہ کا کوئی بیٹا نہیں۔
(رسالہ) سکھاتا ہے کہ تم اللہ کو ایسا جانو۔ جیسی تمہاری اولاد۔
(میں) قرآن مجید محمد صلعم کو خاتم النبین کہتا ہے اور وہ خود سچا نبی صلعم فرماتا ہے۔ لاَ نَبِیِّ بَعْدِیْ
(رسالہ) ایک کلمہ گو آدمی کو اہل بیت رسول کریم صلعم سے بدرجہا بہتر مانو۔
(میں) جس اہل بیت کے واسطے قرآن مجید میں آیت تطہیر موجود ہے۔ جن کی عزت نبی نے کلام اللہ کے برابر فرمائی ہے۔ جن کے مخالف کو جہنمی قرار دیا ہے۔ جن کو نبی نے کل جنتیوں کا سردار فرمایا ہے۔ وہ اپنے ایک ادنیٰ امتی سے تقرب الیٰ اللہ اور علو مدارج میں کسی طرح کم ہوسکتے ہیں۔ میں نے اپنے ہر ایک قول کی تائید میں آیات قرآنی اور احادیث نبوی پیش کردی ہیں۔ پس اگر مقابلہ ہے تو اس رسالہ کا قرآن کریم اور حدیث نبوی سے مقابلہ ہے نہ کہ مجھ ناچیز کا مرزا صاحب یا ان کے خدام سے۔
دوسرے مرزائی صاحب… اگر تم اس خط کو شائع کر دو گے۔ تو تمہاری جان جوکھوں میں پڑ جائے گی۔