نہیں۔ بلکہ علم ربل یا نجوم وغیرہ کے ذریعہ سے کی گئی۔ غرض اس بات سے بڑے دشمن بھی انکار نہ کرسکے۔ کہ اس پیشگوئی کا نصف حصہ بڑی صفائی سے پورا ہوگیا۔
(مجموعہ اشتہارات جدید ایڈیشن ج اوّل ص۳۹۶، اشتہار نمبر۱۲۳)
(حاضرین جلسہ) آمنا و صدقنا۔ اس میں کیا شک ہے؟ ہر کہ شک آرد کافر گردد۔
(غیر) حضرت جی! مرزا احمد بیگ کا مرنا تو عجائبات سے نہیں کہ ایک امر طبعی ہے۔ اور ہر ایک ذی روح کے واسطے بحکم کل من علیھا فان ایک دن آنا ہے۔ گفتگو تو یہ ہے کہ احمد بیگ کی وفات آپ کی پیشگوئی کا نتیجہ نہیں یہ آپ کا نرالا ڈھکوسلا ہے۔ مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنی اشاعۃ السنہ میں اس پیشگوئی کے کسی حصہ کے پورا ہونے کو تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ نمبر ۱ جلد ۱۵ ص ۲۵ میں بسوال سوم مولانا صاحب نے یہ لکھا ہے کہ اس اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء کو جس میں آپ نے یہ تینوں پیشگوئیاں درج کی ہیں۔ آپ نے پبلک میں شائع کیا تھا۔ اور اس کا کیا ثبوت آپ دے سکتے ہیں۔ کہ اس کو چھاپ کر اپنے پاس رکھ چھوڑا تھا۔ اور پرائیویٹ طور پر خاص خاص آدمیوں میں شائع کیا تھا۔ جب کہ آپ کے بعض اشتہارات کی نسبت یہ معلوم ہوچکا ہے۔ اس سوال سے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ اشتہار جس میں یہ پیشگوئی درج ہے۔ احمد بیگ کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ اس صورت میں آپ ہی فرما دیں۔ کہ آپ کی پیشگوئی کی بنیاد اور الہام کی وقعت کیا ہے۔ جب کہ وہ بعد وقوع ظاہر کیا گیا۔ دوسرے حصہ سلطان محمد داماد احمد بیگ یا رقیب خود کی بابت جو پیشگوئی ہے۔ خواہ الہام سے اور کچھ اور۔ حصہ اول مرقوم جناب کی نسبت یہ کسی کو سوال ہے اور یہ اس کو نتیجہ آپ کی پیشگوئی کا کوئی شخص سمجھتا ہے۔ جب تک کہ آپ ثابت نہ کردیں۔ کہ احمد بیگ کی وفات کی نسبت پیشگوئی اس کی وفات سے پہلے پبلک میں شائع ہوچکی ہے۔ اب آپ سے ان کے نکاح آسمانی اور آپ کی محبوبہ و مطلوبہ کے زوج ثانی کی وفات کی بابت سوال ہے۔ جو اب تک پوری نہیں ہوئی۔
(مرزا صاحب) اس شخص کو کہہ دو۔ کہ خاموش بیٹھا ہماری تقریر سنے جائے اور کچھ گفتگو دخل درمعقولات نہ کرے ورنہ محفل سے (پا بدستِ دگری دست بدستِ دگری) نکلوائے جائو گے۔
(حواریین) آپ سنتے نہیں کہ حضور کیا فرماتے ہیں خاموش۔ دم درکش۔ ورنہ ہم کو مجبوراً تعمیل ارشاد میں آپ سے بُرا نہ بننا پڑے۔
(غیر) ہم کو کیا غرض۔ ہم نے ایک حق بات کہی تھی۔ اگر یہاں سچ بولنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ اور اس پر جرم میں گلے کٹتے ہیں۔ تو لیجیے ہمارا سلام۔