حق انہیں مغفرت نصیب کرے
جنت خلد میں رہیں شاداں
نیک بندے جہاں میں اب ہیں
حق کو رکھتے ہیں جو عزیز از جاں
پر مجھے وہ نظر نہیں آتے
دے ملا مجھ کو ان سے یاد رحماں
تیری قدرت سے کچھ نہیں ہے دور
مجھ کو مشکل ہے اور تجھے آساں
ناصر اب ختم کر کلام اپنا
حق تری مشکلیں کرے آساں اس نظم کو پڑھ کر امید ہے کہ میر صاحب اپنی اس بات کو کہ میں اشاعۃ السنہ کے دھوکہ میں آ کر قادیانی سے منحرف ہوگیا تھا، واپس لیں گے۔ اور اقرار کریں گے کہ وہ قدیم سے منحرف ہے۔ اس کو جھوٹا مسیح اور جھوٹا مہدی سمجھتے تھے۔ اب وہ قادیانی کے دھوکہ میں آ کر اس کو سچا مہدی موعود مسیح سمجھنے لگے تھے۔ جس سے پھر ان کو رجوع ہے۔ (از اشاعۃ السنہ نمبر ۱۲ جلد ۱۴ صفحہ ۴۱۷ تا ۴۲۰)
حاشیہ جات
۱؎ جیسے حکیم نور الدین جن کے اخلاص کی قادیانی نے جابجا اسی وجہ سے تعریف کی ہے کہ وہ بہت روپیہ دے چکے ہیں۔
۲؎ دیکھو (فتح اسلام ص۶۰،۶۱، خزائن ج۳ ص۳۶) جس میں اشاعت کتب کے بہانے روپیہ مانگا گیا ہے اور اشتہار مطبوعہ برورق اخیر کشتی نوح واسطے توسیع مکان اور اشتہار جو مرزا امام الدین نے اس کی رد میں شائع کیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ!
۳؎ جیسا کہ بااللہ دیانامی تائب مرحوم کا روپیہ جو اس قسم سے تھا۔ قادیانی نے منگایا اور اب اس کا جواز انجیلی کے حوالہ سے اور ایک نقلی دلیل سے ثابت کیا ہے۔ جس کا بیان مفصل اشاعۃ السنہ نمبر ۹ جلد ۱۸ میں درج ہے۔
۴؎ براہین احمدیہ کی قیمت پیشگی لینے کی طرف اشارہ ہے کہ جس کا مرزا صاحب کرکے خورد برد کرلیا۔ اور فتح اسلام میں اس کو تسلیم بھی کرلیا ہے۔
۵؎ یہ قادیانی کے نام اور دعوے پر صاف تصریح ہے اور اس وقت دنیا میں کوئی نہیں ہے جو بجز قادیانی احمد اور عیسیٰ کہلاتا ہو۔
۶؎ اس اشارہ کی تعریف میر صاحب نے زبانی یہ کی تھی کہ جو کوئی دنیا دار اور مال دار قادیانی کے پاس آتا ہے اس کی دعوت کرتا ہے۔ لدھیانہ میں خاص ایک وہاں کے رئیس شاہزادہ والا گوہر آئے تو ان کی بڑی دھوم دھام سے دعوت کی۔وقس علیٰ ہذاً۔
۷؎ اس اشارہ کی تشریح آپ نے یا ایک اور گھر کے بھیدی فتح خان نامی نے یہ کی ہے