تحریک کی ہے اور یہ بھی اختیار دیا ہے کہ چاہیں تو تحریری بحث اس کے متعلق کریں۔ ان جملہ امور کے گوش گزار کرنے کے بعد میں آپ کو مطلع کرتا ہوں میں آج انشاء اللہ تعالیٰ جامع مسجد میں وقت مقررہ پر حاضر ہو جائوں گا۔ اگر آپ انہیں شرطوں کے موافق بحث کے لیے یا قسم کھانے کے لیے جامع مسجد میں تشریف لاتے ہیں۔ تو واپسی محجو کو اطلاع دیں یعنی مجھ کو اس امر سے مطلع فرما دیں کہ میں حسب منشاء آپ کے اشتہار ۱۷ اکتوبر ۱۸۹۱ء بحث کرنا چاہتا ہوں۔ یا قسم کھانا چاہتا ہوں۔ تاکہ آپ کا رقعہ بطور سند رکھا جائے۔
خاکسار عبد اللہ الصمد غلام احمد ۲۰ اکتوبر ۱۸۹۱ء
رقعہ ثانی جناب مولانا صاحب
بجواب رقعہ مرزا صاحب
بعد سلام مسنون مدعا یہ ہے میں تم کو کل خط میں جو کچھ لکھ چکا ہوں۔ اس کے خلاف ایک حرف بولنے کا آپ کو مجاز نہ ہوگا۔ اس میں کوئی پیچیدہ بات نہیں لکھی گئی ہے۔ تمام مضمون صریح و صاف ہے۔ اس کو پیچیدہ کہہ کر حیلہ حوالہ کرنا یہ تمہاری اس موقع سے پہلو تہی کرنا ہے۔ آپ نے میرا قسم کھانا ایک امرپر چاہا تھا میں نے اس کے ساتھ چند امور شامل کر دیے۔ باقی امور کی شمولیت کو موقع پر ملتوی رکھنا۔ جس میں آپ کی درخواست شئی زائد قبول ہوئی کچھ کمی نہیں ہوئی اور اس زیادتی میں کسی قسم کا حرج نہیں۔ جب فیصلہ قسم پر قرار پایا تو پھر ایک امر اور چند امور پر قسم کھانا مساوی ہے۔ اور تقریباً مساوی وقت چاہتا ہے لہٰذا اول آپ کو میری قسم پر اقرار توبہ کا اس مجمع میں لکھنا ہوگا۔ پھر میری طرف سے آپ کے عقائد سنائے جائیں گے۔ پھر ہر عقیدہ پر آپ کو ایک مرتبہ صریح الدلالت آیت یا حدیث صحیح پیش کرنی ہوگی اور قسم پر فیصلہ ہوگا۔ اور اس مجلس میں یہ اختیار آپ کو ہرگز نہ ہوگا۔ کہ اپنی طرف سے آپ کچھ بولیں۔ جب تک میری طرف سے سوال نہ کیا جائے۔ اور سوال کے بعد بھی آپ کو اس قدر بولنا ہوگا۔ جس قدر آپ سے پوچھا جائے۔ زائد از مطلوب اگر آپ بولیں گے تو فوراً روک دیے جائیں گے۔ اور یہ آپ کی صریح پہلو تہی اور حیلہ جوئی سمجھی جائے گی۔
یہ عاجز وقت معینہ پر مسجد میں جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ آپ سے بپا بندی تحریر امروز و دیروز ضرور آئیں۔ اور میری دونوں تحریریں مرقومہ ۱۹، ۲۰؍اکتوبر سنداً ضرور ساتھ لائیں۔
الراقم سید محمد نذیر حسین ۲۰؍اکتوبر ۱۸۹۱ء