راوی… جی ہاں سارا شہر آج کل کاغذی پیرہن سے ملبس ہے۔
مولوی صاحب… اکتوبر کا اشتہار قادیانی صاحب کا اور ۷ اکتوبر کا جواب آپ نے دیکھا ہوگا۔
محفل میں ہلچل واقع ہوئی اور آدمیوں نے راستہ چھوڑا اور تعظیم کو کھڑے ہوئے حضرت میاں صاحب کے تشریف لانے کا شور و غل ہوا۔
حضرت میاں صاحب (مسند پر جو پہلے سے آراستہ ہوچکی تھی) تکیہ کے سہارے متمکن ہوئے گل دان روبرو رکھا گیا سانس (جو ضعف اور کبر سنی کی وجہ سے چڑھ گیا تھا) درست کرکے حاضرین جلسہ کی طرف خطاب کرکے ۸ تو بج گئے ہوں گے۔
حکیم محمد عبدالمجید خان صاحب ڈپٹی محمد الٰہی بخش صاحب، نواب سید سلطان مرزا صاحب آنریری مجسٹریٹ وغیرہ چند صاحبان نے گھڑی جیب سے نکال کر ساڑھے آٹھ بجے ہیں۔
حضرت مولانا صاحب… اوہو اور ادھر سے کچھ خبر نہیں آئی۔حاضرین… ابھی تو صدا برنخاست کا نقشہ ہے۔
حضرت… کوئی حجت باقی نہ رہ جائے آخر انہوںنے آنا تو ہے نہیں۔
مولوی عبد المجید صاحب… اشتہار قادیانی مطبوعہ ۱ اکتوبر کا جواب ۷ اکتوبر کو منجاب مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب چھپ کر شائع ہوا تو فوراً اس کا ایک پرچہ مولوی عزیز الحسن صاحب کی وساطت سے قادیانی صاحب کی خدمت میں بھجوایا گیا جو مولوی صاحب نے قادیانی صاحب کے دست خاص میں دیا ۹ اکتوبر کو شام سے پہلے مولوی ابو سعید صاحب کو مولوی عبد الحق صاحب کی ملاقات کے لیے ان کے مکان پر (جو قادیانی صاحب کی فردد گاہ کے قریب ہے) پہنچنے کا اتفاق ہوا تو وہاں انہوں نے مزید احتیاط کی نظر سے قادیانی صاحب کے ایک حواری امیر علی شاہ سیالکوٹی کو بلایا اور چند اشخاص کے سامنے ان کو وہ جواب دیا دوسرے دن شام کے قریب تک اس جواب کے مضمون سے قادیانی صاحب کا انکار ظاہر و مشتہر نہ ہوا تو اس سے سمجھا گیا کہ قادیانی صاحب نے مضمون جواب کو پسند کرکے ۱۱ اکتوبر کو چاندنی محل میں حاضر ہوجانا اور مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب سے گفتگو کرنا منظور کیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے اشتہاروں اور خطوں میں اپنے شرائط کے مسلم ہو جانے کے بعد صرف فریق ثانی کی خواہش اور طلبی پر حاضر ہو جانا قبول کرلیا تھا۔ اور کسی تحریر یا اشتہار میں بعد تسلیم شرائط خود اپنے حاضر ہو جانے کو دوبارہ اطلاع منظوری یا کسی اور شرائط سے مشروط و متعلق نہ کیا تھا۔