ہے اور کافل محلاً مجرور ہے نہ متوفی کا مفعول ہے۔
وضع کا معنے یہ ہے کہ ایک لفظ ماننے کو کسی مفہوم کے واسطے معین کردیا رہا یہ کہ شخصی کیا ہوا اور نوعی کیا سو واضح ہو کہ شخصی ہیں وضع اور موضوع الٰہ دونوں خاص ہوتے ہیں۔ جیسا کہ زید کا لفظ ذات زید کے لیے موضوع ہے۔ اب اس میں وضع اور موضوع لہ میں خاص ہیں پس یہ وضع شخصی ہوگا اور اینٹ کی دیوار میں داخل ہونا ابھی اسی شخص کے ذریعہ ہو کیونکہ وہ دیوار میں جز کی طرح داخل ہے اور وہ دیوار موضوع لہ بوضع شخصی ہے وضع نوعی وہ ہے جو مصنف نے خود فرما دیا۔
٭ عموم مجاز اس کو کہتے ہیں کہ لفظ سے ایک معنی مراد لیا جائے کہ وہ حقیقی و مجازی کو شامل ہو جیسا کہ حضرت مصنف تقدس مآب نے فرمایا ہے کہ وفا مقارن ہو یا نہ اب جہان پر مقارن ہوگا وہ حقیقی اور جہاں پر مقارن نہیں ہوگا وہ مجازی کہلائے گا۔ تو عموم کا معنی ہے۔
٭ دیکھو توفی مشتق ہے اس کا اصل ماخذ وفا ہے۔ اور تو اپنی معنے پر بوضع شخصی دال ہے جیسا کہ کہیں کہ یہ لفظ جو متفعل کے وزن پر ہو۔ وہ تین چیزوں کے مجموعہ پر دال ہوگا۔ ایک ماخذ دوم بات کا اقتضاء سوم نسبت الفاعل ظاہر ہے۔ کہ توفی کا بھی مجموعہ ہے۔ متفعل کے وزن پر ہے۔
۳؎ قادیانی کا استدلال یہ بھی ہے کہ اگر مسیح علیہ السلام آسمان پر زندہ ہوں اور وہی پھر اتریں گے تو یا تو نزول کے وقت وصف رسالت سے تنزل ہوں گے۔ حالانکہ یہ ان کی تحقیر وہتک ہے یا تو اس وصف کے ساتھ موصوف ہوتے ہی اتریں گے۔ جیسے کہ رفع سے پیشتر رسول تھے۔ لیکن قرآن میں ہمارے سید مولا حضرت رسول اکرمؐ کی شان میں فرمایا گیا ہے کہ نہیں ہیں آنحضرتؐ ہمارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ لیکن وہ خدا کے رسول ہیں پیغمبروں کے خاتم ہیں۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی ازسر نو مبعوث نہیں ہوگا چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا پس جبکہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں تو مسیح علیہ السلام نبوت کی حالت میں کیسے نازل ہوسکتے ہیں۔ پس یہ عقیدہ کہ مسیح نبی ہی ہوتے اور اتریں گے صاف طور سے اس آیت سے مخالف ہے۔
الجواب پہلے ہم اجمالاً تحقیق کریں گے کہ ہمارے آنحضرتﷺ کے بعد جتنے پیغمبر تھے۔ وہ تمام عالم برزخ میں رسول کریمﷺ کے مبعوث ہونے کے بعد وصف نبوت سے موصوف تھے یا عالم آخرت میں موصوف ہوں گے یا نہ اگر کہہ دیں گے کہ معزول ہیں۔ یا ہوں گے تو صاف پیغمبروں کا ہتک ہے اور نہ یہ ان کی عالیشان سے مناسب ہے بھلا یہ کیونکر ہو۔ کتب عقائد میں یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے۔ کہ انبیاء علیہم السلام بعد الانتقال ہرگز اپنے مناصب سے معزول