تو مادہ ہی موجود نہیں ہے۔
یہ تو ہوا اس الہام کے متعلق جو محمدی بیگم کے نکاح سے پہلے ہوا تھا۔ جس میں پہلے الہام کی تاکید تھی۔ باقی رہا وہ الہام جس میں کہاگیا تھا کہ لڑکی کا خاوند یوم نکاح سے اڑھائی سال اور باپ تین سال کے عرصہ میں فوت ہوجائیں گے اور وہ بھی غلط نکلا۔ کیونکہ لڑکی کا باپ جس کی میعاد تین سال تھی اور خاوند کی میعاد اڑھائی سال۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بالترتیب سلطان محمد بیگ پہلے مرے گا اور مرزاحمد بیگ بعد میں۔ مگر لڑکی کا باپ قضاء الٰہی سے چھ ماہ کے بعد مرگیا اور جو اصل حریف تھا وہ مرزاقادیانی کی چھاتی پر مونگ دلتا رہا اور منکوحہ آسمانی پر متصرف رہا۔ بلکہ اصل پیشین گوئی کے چند اجزاء ہیں جو تمام مل کر پیشین گوئی بنتی ہے۔ وہ مرزاقادیانی نے خود بیان کر دئیے ہیں۔
۱…
’’مرزااحمد بیگ ہوشیار پوری تین سال کی میعاد کے اندر فوت ہو۔
۲…
داماد اس کا ارھائی سال کے اندر فوت ہو۔
۳…
احمد بیگ تاروز شادی دختر کلاں فوت نہ ہو۔
۴…
وہ دختر بھی تانکاح وتاایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو۔
۵…
یہ عاجز بھی ان تمام واقعات کے پورا ہونے تک فوت نہ ہو۔
۶…
پھر یہ کہ اس عاجز سے نکاح ہو جاوے اور یہ ظاہر ہے کہ یہ تمام واقعات انسان کے اختیار میں نہیں۔‘‘ (شہادت القرآن ص۸۰، خزائن ج۶ ص۳۷۶)
اس میں بالکل ظاہر ہے کہ سلطان محمد اور مرزااحمد بیگ کو تین سال کے عرصہ میں بموجب پیشین گوئی مرنا ہے۔ مگر چالاکی دیکھیں۔ چونکہ اس وقت مرزااحمد بیگ مرگیا تھا۔ لہٰذا اس کا نمبر ایک کر دیا۔ سلطان محمد کو بعد میں نمبر۲ پر رکھا۔ حالانکہ پیشین گوئی میں نمبر۱ سلطان محمد کا تھا۔ تاہم پیشین گوئی پوری نہ ہوئی۔ کیونکہ مشہور قاعدہ ہے۔ ’’اذافات الجزء فات الکل جز‘‘ جزکے عدم سے کل عدم ہو جاتا ہے۔
دوسری خبر یہ تھی کہ داماد اڑھائی سال میں فوت ہو۔ یہ بالکل غلط نکلا۔ کیونکہ مرزاقادیانی کے مرنے کے بعد تک بلکہ بڑی مدت تک زندہ رہا۔ لہٰذا دوسری سب خبریں خود بخود جھوٹی ثابت ہوئیں۔ مرزاقادیانی کا نکاح نہ ہونا تھا نہ ہوا۔ مرزاقادیانی ناکام ونامراد آنجہانی ہوگئے۔
پھر مرزاقادیانی نے اس کے بعد پیچ وتاب کھا کر اور الہام جڑ دئیے کہ وہ عورت بیوہ ہوکر میرے نکاح میں آئے گی۔ بلکہ یہاں تک کہہ دیا میرے صدق وکذب کا یہ معیار ہے۔ اگر میں محمدی بیگم سے نکاح کئے بغیر مرگیا تو جھوٹا۔