مرزاغلام احمد قادیانی نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اپنی پہلی بیوی (پھجے دی ماں) کو بھی محض اس لئے طلاق دے دی کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ کیوں ہے۔ چونکہ مرزاقادیانی کا بڑا لڑکا سلطان احمد مرزاقادیانی کا ہم عقیدہ نہ تھا اور اپنی تائی کو چھوڑ نہ سکتا تھا۔ اس لئے مرزاقادیانی نے غصہ میں آکر پہلی بیوی کو طلاق دے دی کہ میری پیشین گوئی میں مزاحم ہورہی ہے۔
کیا یہی پیغمبرانہ شان ہے؟ اور لڑکے کو بھی عاق کر دیا۔
اب میں اصل پیشین گوئی کا بیان کرتا ہوں۔ محمدی بیگم کا نکاح مورخہ ۷؍اپریل ۱۸۹۲ء کو مرزاسلطان محمد ساکن پٹی ضلع لاہور سے ہوگیا۔ مرزاقادیانی ہاتھ ملتے رہ گئے اور یاس وحسرت، ناکامی عشق پر چار چار آنسو بہاتے رہے۔ مرزاقادیانی کا الہام مندرجہ (فیصلہ آسمانی ص۴۰، خزائن ج۴ ص۳۵۰) بالکل غلط ثابت ہوا۔
وہ یہ تھا: ’’لا مبدل لکلمات اﷲ‘‘ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔
بلکہ مرزاقادیانی نے یہاں تک کہہ دیا: ’’مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس کو وقوع میں آنے سے نہیں روک سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا نکاح پڑھادیا ہے۔ میری باتوں کو کوئی نہیں بدلا سکتا۔‘‘
گویا کہ مرزاقادیانی سے محمدی بیگم کا نکاح خدا نے آسمان پر خود پڑھایا تھا اور مرزاسلطان محمد زبردستی قابض ہوگیا۔ قابض محض نہیں ہوا۔ بلکہ درجن کے لگ بھگ کم وبیش اولاد بھی فراہم کر لی اور مرزاقادیانی بجز تاویل پر تاویل اور موت کی دھمکیاں دینے اور خاک اڑانے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ کیا جس عورت کا نکاح مجمع عام میں کوئی ادنیٰ مولوی پڑھادے تو دوسرا کوئی اس عورت پر قابض ہونا چاہے تو کوئی غیرت مند شوہر یہ برداشت کرے گا کہ:
الف… بیوی ہو اس کی اور دوسرے کے گھر کی زینت بنے؟
ب… بیوی ہو اس کی اور ہو دوسرے کے بستر پر؟
مرزائیو! گندی نالی میں ڈوب کر مر جاؤ۔ تمہارے پیغمبر کی بیوی لے اڑا سلطان محمد اور تم نے حصول مادر کے لئے کبھی کوئی عملی کوشش نہ کی۔ کم ازکم مرزاقادیانی کے مرید حسب عادت مرزاقادیانی عدالت میں دعویٰ ہی کر دیتے کہ: ’’ام القادیانیین پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ ڈاکو کو سزا دی جائے۔ خود کاشتہ پودا کی حفاظت کی جائے۔‘‘
اگر مرزاقادیانی اور ان کے حواریوں میں غیرت ہوتی، شرم وحیا ہوتی تو ایک دن بھی اس دنیائے بے وفا میں نہ رہتے۔ جہاں ان کی عزت پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ قادیانی لغت میں شرم وحیا کا