حضرت… کیا بات تھی جو تم لوگ تذکرہ کر رہے تھے۔ ہوشیار پور سے آدمی آنے کا اور احمد بیگ کی لڑکی کی شادی کا۔
ہمارے ناظرین اب تو سمجھ گئے ہوں گے۔ یہ صاحب ہمارے ناول کے ہیرو مرزا صاحب ہیں۔
خادم… حضور ہوشیارپور سے آدمی آئے تھے وہ ذکر کرتے تھے۔ کہ مرزا احمد بیگ کی بڑی لڑکی کی شادی عنقریب ہونے والی ہے۔
حضرت… کہاں اور کس سے۔خادم… کوئی پٹی گائون ہے ضلع لاہور میں وہاں سے برات آئے گی۔ اور کوئی مرزا سلطان محمد نامی شخص ہے اس کو ساتھ نکاح ہوگا۔
حضرت یہ سنتے ہی سن ہوگئے
کاٹو تو لہو نہ تھا بدن میں
بے ساختہ مرزا رفیع السودا کا یہ شعر زبان سے نکلا
کہتے تھے ہم نہ دیکھ سکیں تجھ کو غیپرناس
پر جو خدا دکھائے تو لاچار دیکھنا
ہائے افسوس دعا میں بھی کچھ اثر نہیں رہا
جو تدابیر کیں الٹی پڑیں
پہلے تو دعا کو تیر بہدف پاتے تھے۔ بجلی کی طرح کوندتی تھی۔ بڑا بھروسہ تو اسی پر تھا کیا عشق میں سب کے ساتھ چھوڑ دیے ہیں۔
نہیں نہیں عاشق کی آہ تو خالی نہیں جاتی جذبہ کامل ہونا چاہیے۔ پہلے ان کے وارثوں کو سمجھائو دھمکائو ڈرائو اگر نہ مانیں تو خدا کی طرف رجوع لائو دیکھو تو کیا ہوتا ہے۔
جذبہ شوق جو ہوئے گا تو انشاء اللہ
کچے تھاگے میں چلی آئے گی سرکار بندھی
سلطان محمد بیگ کو یہ لکھا کہ تم اس تعلق کو قطع کردو۔ تمہارا نکاح دوسری جگہ کر دیا جائے گا۔ تمہاری جوانی پر مجھے رحم آتا ہے۔ تم اس ارادہ سے باز آئو اور اس کے وارثوں کو بھی خطوں کے ذریعہ سے ڈرا یا دھمکایا۱؎۔