الف… ’’چونکہ یہ ضعیف بندہ ہے۔ اسی قدر ظاہر کرتا ہے۔ جو منجانب اللہ ظاہر کیا گیا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جدید ایڈیشن اشتہار نمبر۳۵ ج۱ ص۱۰۲)
ج… آپ اپنے خیال شریف میں ضعیف بندہ نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کے کل آفرین ہیں کوئی چیز خواہ آپ ظاہر کریں یا آپ کا خدا مگر ہمارا مطلب کہیں نہیں جاتا ہے۔ آپ جھوٹے ہوں یا آپ کے مرید۔
الف… ’’چونکہ اشتہار چھپنے میں کسی قدر دیر ہوگئی اس واسطے چند قلمی نقلین بذریعہ رجسٹر بخدمت مسٹر عبد اللہ صاحب سابق اکسٹرا اسسٹنٹ و پادری عماد الدین صاحب وغیرہ بلا توقف بھیجے گئے ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جدید ایڈیشن اشتہار نمبر۳۵ ج۱ ص۱۰۱ حاشیہ)
ج… اب بھی اسی طرح عجلت کرتے اور قلمی نقلیں بھیج کر اطلاع دیتے تھے۔ کہ میرا الہام جھوٹا ہوا یا فلاں شخص نے زہر دے کر مار دیا یا فلاں نے کی کارسازی سے لڑکے سے لڑکی ہوگئی وغیرہ وغیرہ۔ جو مکر ہوسکتا تھا اس کی بدستور سابق اطلاع واجب ہے۔
مرزا کی جعلسازی
مرزا غلام احمد نے جو سوامی دیانند سرسوتی کے بارہ میں براہین احمقیہ میں اپنی پیشگوئی لکھی ہے۔ وہ صریح البطلان تھی۔ اگر مرزا پیشگوئی پر قادر ہوتا۔ تو سوامی کی وفات سے پہلے اشتہار دیتا اور درج کراتا کہ بتاریخ فلاں و ماہ فلاں سنہ فلاں سوامی جی روانہ جنت ہوں گے۔ اس کا تو کچھ ذکر نہیں جب سوامی جی انتقال کر گئے۔ تو مرزا صاحب اپنی براہین احمقیہ کھول بیٹھے اور جہلاء کو سنانے لگے اسی طرح اب یکم مارچ ۱۸۸۶ء سے ایک اشتہار مشتمل باتیاری رسالہ بے نور جو چندبرائیوں پر شامل ہے دے کر خاموش ہوگئے ہیں اور باوجود و عدہ قلیل کے اس مدت کثیر تک شائع نہیں ہوا۔ ہم فرضی ملہم صاحب کو متنبہ کرتے ہیں۔ کہ اگر پیشگوئی کا دعوی ہے تو رسالہ مذکور عرصہ پندرہ روز میں شائع کریں۔ اور کسی شہر کے حیات ممات کا نقشہ بھی بنا کر مشہور کریں۔ تاکہ اس کی قلعی کھلے۔ اور اگر اسی طرح خاموش رہے اور کسی وقوعہ کے بعد پھر آپ نے گپ ماری تو محض لن ترانی سمجھی جائے گی۔ بلکہ سب سے اول اپنی وفات کی پیشگوئی کا پتہ معہ سال و تاریخ بتا دیں تو بہت انسب ہے۔ کیونکہ ایک تو ان کے مکر و فریبوں سے مسلمان نجات پائیں گے اور دوسرے ان کے گرویدوں کو موقع فخر ملے گا۔ چہ خوش بود کہ برآید بیک کرشمہ درکار۔
راقم ایک پنجابی الہاموں کا شائق، (کلیات آریہ مسافر صفحہ ۴۹۹ تا ۸۰۱)