از صحبت نادان برت نیز بگوئم
خویشی کہ تونگر شد و آرام ندارد
زین ہر دو تبردان تو شہی را کہ در اقلیمباخنجر خونریز دل نرم ندارد
زین ہرسہ تبرنیہ بشنو باتو بگویم
پیرے کہ جوانی کندو شرم ندارد
ہائے تو کب تک ستائے گی اے نامراد محبت، اے خانہ خراب عشق، تیرا برا ہو۔ تو کیا شے ہے۔ محبت آہ کیا پیارا نام ہے۔ نہیں نام ہی پیارا نہیں اس کی ابتداء ہی نہایت ہی خوشگوار ہے۔ اندی و خراباتی اور عالم شباب اولی۔ مگر ہائے ناکامی ہمیں تو شباب کبھی آیا ہی نہیں۔
سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر
ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے
’’چالیس سال کی عمر میں ہی حالت مردمی کالعدم تھی۔ ضعف دماغ اور ذیابیطس مہلک مرض مستزاد‘‘ (تریاق القلوب ص۳۵، خزائن ج۱۵ ص۲۰۳)
اور اب تو پیری وصد عیب کے مصداق سن شریف پنجاہ و شش تازم باین ریش و فش اگر کسی پر یہ راز فاش ہوا تو کیا حالت ہوگی۔
ایک نظر دیکھا کے گھائل کیا قتل ہی کر ڈالا پھر منہ نہ دکھایا۔
ہیں ہیں میں کیا کہتا ہوں۔ وہ شریف اور پاک دامن، باعصمت، صاحب عفت، لڑکی کم سن ان نامحرموں میں کیونکر آسکتی۔
شاید بازاری تو ہے ہی نہیں۔ اور ابھی اس کو خبر ہی کیا ہے۔ سن تمیز اور بلوغ کو بھی نہیں پہنچی۔
ہائے ظالم تیری کس ادا نے مجھ گرگ باران دیدہ سردو گرم زمانہ چشیدہ کو بیک نظر از خود رفتہ دین و دنیا سے بیگانہ کردیا۔ پیری میں آہ کٹتی ہے مر مر کے زندگی۔ بجھ بجھ کر پھر بھڑکتی ہے۔ شمع سحر کی لو۔ اے کاش تو میری ہوتی یا اپنی صورت دیکھا کر یہ روز سیاہ مجھ کو نہ دیکھاتی مجھ کو کیا خبر تھی۔ لگتے ہی ہوگیا جگر کے پار۔ تیر مژگان نے زود کام کیا۔
اس سفر کی ضرورت ہی کیا تھی۔ کیا اسی واسطے تقدیر کستان کشان وہاں لے گئی تھی۔ افسوس کھو بیٹھے کوئے یار میں ہم جا کے دوستو۔ ناموس ننگ و غیرت و صبر و قرار دل۔ دل ہے کہ سینہ میں تنور کی طرح جلتا ہے۔ آنکھ ہے کہ دریا کی طرح جاری۔ کسی کروٹ کسی پہلو آرام نہیں۔ ایک سب آگ ایک سب پانی۔ دیدہ و دل عذاب میں دونوں۔
پائوں کی آہٹ سے چونک کر کراہا کون ہیں شاہ جی؟