کہ لیکھ رام مراد نہیں ہے۔ دیکھو:
وقاسمتہم انا الفتاوی صحیحۃ
وعلیک وزر الکذب ان کنت تکذب
وہل لک من علم ونص محکم
علی کفرنا او تخرصن وتتعب
(کرامات الصادقین ص۵۴، خزائن ج۷ ص۹۶)
ترجمہ: تو نے ان لوگوں کو قسم کھا کر بتلایا کہ فتویٰ صحیح ہے۔ (یعنی جو مرزاقادیانی پر لگائے گئے) اگر تو جھوٹا ہے تو جھوٹے کا وبال تجھ پر ہے۔ کیا تیرے پس قطعی علم یاکوئی نص مضبوط ہے۔ ہمارے کفر پر؟ یا محض اٹکل اور تکلف سے کام لے رہا ہے۔
اب معلوم ہوا کہ یہاں وہ شخص مخاطب ہے۔ جس نے غلام احمد پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔ معلوم ہوا لیکھ رام کے متعلق نہیں۔ پس مرزاقادیانی نے اپنی عادت کی بناء پر لکھ رام کے مرنے کے بعد اس کو ان سے جوڑ دیا۔
(کرامات الصادقین ص۵۵، خزائن ج۷ ص۹۷) پر ایک اور شعر اس طرح لکھا ہے ؎
اتامر باالتقویٰ وتفعل ضدہ
وتنکث عہدا بعد عہد وتہرب
کیا تو تقویٰ کا حکم دیتا ہے اور خود اس کے خلاف کرتا ہے اور مکرر عہد شکنی کرتا ہے اور بھاگتا ہے۔
امت مرزائیہ بتلائے یہ لیکھ رام اتقاء کا درس دیتے تھے۔ ان سے عہد ہوا تھا یا کہ شیخ محمد حسین صاحب سے؟
ایک شعر اور لیجئے اسی (کرامات الصادقین ص۵۵، خزائن ج۷ ص۹۷) پر ؎
الا ایہا الشیخ اتق اﷲ الذی
یہدّٰ عمارات الہوی ویخرب
اے شیخ ڈر اس خدا سے جو خواہشات کی عمارتیں گراتا ہے اور برباد کرتا ہے۔
اب بالکل واضح ہوگیا کہ جس پیش گوئی کو مرزاقادیانی لیکھ رام پر چسپاں کر رہے ہیں۔ وہ مولوی محمد حسین صاحب کے متعلق ہے۔ مگر ان کو خدا نے سلامت رکھا۔ مرزاقادیانی کی دال نہ گلی۔ ایک گواہی اور لو (کرامات الصادقین ص۵۶، خزائن ج۷ ص۹۸) پر اس طرح لکھتے ہیں ؎