جا نماز بچھی ہوئی ہے کبھی اس پر بیٹھ کر مراقب ہو نفس سے محاسبہ ہوتا ہے۔
کبھی کیش بک کو کھول کر دیکھتے ہیں۔ دس ہزار، چھ ہزار، ایک ہزار، دو ہزار، پانسو۔ تین سو کوئی بیس ہزار کی رقم ہے۔ بڑی رقم ہے۔
اب ہمارے امیر کیا امیر الامراء ہوتے ہیں۔ کسی مردود کو شک یا تامل ہوگا۔ قرضہ ادا ہو جائے اور جائیداد و فک الرہن ہو جائے۔ تو پھر ہم یا ہم ہیں رئیس ہیں۔ امیر ہیں۔ شریف ہیں جو کچھ ہیں ہم ہیں۔
اور کوئی کارخانہ جاری کیا جائے تو معقول منافع ہوسکتا ہے۔ کہ زر زرکشند در جہان گنج گنج اب ایک رقم بڑی رقم جو ہمارے پاس جمع ہوگئی ہے۔ زمانہ نازک جاتا ہے ابھی کوئی آئے، جان سے مار کر روپیہ لے چلتا پھرتا نظر آئے اور آئندہ کو بھی امید واثق ہے کہ روپیہ کی آمد رفت رہے گی۔ کیونکہ اعتبار جمگیا ہوا بندھ گئی۔ رجوعات خاطر خواہ ہوگیا ہے۔ اور اب شہرت بھی جیسی چاہیے تھی کچھ اشتہاروں نے کچھ رسالوں نے نزدیک دور مشہور کردیا ہے۔
اور جو لوگ آتے جاتے ہیں۔ ان کی زبان سے جو اخبار اور اشتہار نہیں دیکھ سکتے سن کر واقف ہوں گے غرض اب بازار خوب گرم ہو جائے گا پھر چین چین ہے۔
مگر ہاں براہین احمدیہ حسب وعدہ شائع نہ ہونے سے کہیں ہوا نہ اکھڑ جائے کیونکہ بدمعاملگی دکانداری کی دشمن ہے۔ کسی طرف لوگوں کا خیال منعطف کرنا چاہیے۔
اور چند ایسے رسالوں کے بذریعہ اشتہارات بشارت دے دینی چاہیے۔ جس میں بہت سے الہاموں اور پیشگوئیوں کے درج کرنے کا۱؎ وعدہ کیا جائے۔ نقد روپیہ کو سوچو کیوں ہے ہاتھی چھوٹے گھوڑا چھوٹے خدا جانے کیا ہو، کیا نہ ہو۔
اگر پولیس سے گارڈ کی درخواست کی جائے۔ ہوا اکھڑ جائے لوگ بد اعتقاد ہو جائیں۔ گوئم مشکل و گر نہ گوئم مشکل کا معاملہ ہے۔
ہاں اشاعت اشتہار اور تصانیف تو بہت ہوئے۔ اور ہوتے ہیں۔ اب مصلحت ہے کہ ایک سفر بھی کیا جائے۔ یہ بھی ایک شہرت کا ذریعہ ہے۔
تمام رات اسی ادھیڑ بن میں گئی آخر تھک کر چارپائی پر گرے تو آنکھ لگ گئی۔
سورج نکلا تو آنکھ کھل گئی منہ ہاتھ دھویا نماز پڑھ باہر برآمد ہوئے اور حوالی سوالی نے چاروں طرف ہی گھیر لیا۔