روسیاہ کیا جائے۔ میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے۔ مجھ کو پھانسی دیا جائے۔ ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں اور میں اس اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ ضرور کرے گا ضرور کرے گا۔ زمین آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی۔‘‘
(جنگ مقدس ص۲۱۰،۲۱۱، خزائن ج۶ ص۲۹۲،۲۹۳)
اب پیش گوئی کا انجام سنئے۔مدت پیش گوئی مورخہ ۵؍ستمبر ۱۸۹۴ء کو ختم ہوگئی۔ آتھم بالکل تندرست رہا اور دندناتا پھرتا رہا اور مرزاقادیانی کی پیشین گوئی جھوٹی ثابت ہوئی اور مرزاقادیانی کاذب ٹھہرے۔ بلکہ مرزاقادیانی بقول خود ذلت، رسوائی وروسیاہی پھانسی بلکہ ہر قسم کےذلیل سے ذلیل لقب کے مستحق قرار پائے۔ ’’فاعتبروا یا اولو الابصار‘‘ اب مرزاقادیانی کو اپنے الہام کے ڈھونگ کو بند کر دینا چاہئے تھا اور نبوت کاذبہ سے توبہ کر لینی چاہئے تھی۔ مگر شیطان کب نچلا بیٹھنے دیتا ہے۔ اس نے اب اور الہام کیا کہ حیا ترک کر دو۔ ڈٹ جاؤ۔ اگر ساری دنیا بھی کہہ دے مرزاقادیانی اب دکان نبوت بند کر دیجئے۔ سارا پرچون ملاوٹی مضر صحت ہے۔ مگر آپ زورشور سے لوگوں کی تردید کرو اور دعویٰ کر کہ ’’پیش گوئی‘‘ سچی ثابت ہوئی۔ کیونکہ عبداﷲ آتھم دل دل میں ڈر گیا تھا۔ بس یہ ہی رجوع الیٰ الحق تھا۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے کفر وشرک کی خوب مثال بیان فرمائی ہے۔ ’’مثل کلمۃ خبثۃ کشجرۃ خبیثۃن اجتثت من فوق الارض ما لہا من قرار (ابراہیم:۲۶)‘‘
اس طرح قادیانی کلمہ خبیثہ کی بھی اصل نہ ہونے کی بناء پر کسی بات پر قرار نہیں ہے۔ دیکھیں کہاں پیش گوئی میں تھا کہ ڈر گیا پھر عذا ٹل جائے گا۔ بلکہ وہ توڈرا بھی نہیں۔ وہ مرزا کو برابر کاذب کہتا رہا۔
رجوع الیٰ الحق تب ہوتا کہ وہ الوہیت مسیح کا انکار کر دیتا اور محمد رسول اﷲﷺ کو خدا کا سچا نبی مانتا اور توحید کا قائل ہو جاتا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ آخر دم تک عیسائیت پر قائم رہا اور اسلام کے خلاف رہا۔
مرزاقادیانی خود لکھتے ہیں کہ اگر وہ عیسائیت پر قائم رہا تو ضرور مدت پیش گوئی میں مرجائے گا۔ آپ پر روشن ہے کہ وہ عیسائیت پر قائم رہا ہے۔ اس کے کسی قول وفعل سے عیسائیت کا ترک معلوم نہیں ہوتا۔ جس کے خود مرزاقادیانی گواہ ہیں۔ اب مرزاقادیانی کی عبارت ملاحظہ فرمائیں۔ وہ خود انجام آتھم میں پیش گوئی کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’بلکہ پیش گوئی میں یہ صاف شرط موجود تھی کہ اگر وہ عیسائیت پر مستقیم رہیں گے اور