کاسفر بتلایا گیا ہے، اورحنفیہ کے نزدیک تین دن کا سفر سفر شرعی ہوتا ہے؛ ظاہر ہے پہلی نگاہ میں آدمی یہی سمجھےگا کہ حنفیہ کے نزدیک مسافت سفر بڑھی ہوئی ہوگی۔ لیکن تحقیق سے معلوم ہوتا ہےکہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک دو دن کے سفر میں ہر دن بارہ بارہ گھنٹے چلنا ہوگا، اورحنفیہ کے نزدیک تین دن میں ہردن صبح سے زوال تک چلنا مراد ہے؛ چنانچہ محشی منہاج احمد عمیرہ شافعیؒ فرماتے ہیں:
قوله : ( أي سير يومين معتدلين ) عبارة الإسنوي وهما يوم وليلة أو يومان معتدلان أو ليلتان معتدلتان ا هـ . (حاشیۃ عمیرۃ: ۱:۲۹۹)
’’مؤلف کا قول دو معتدل دنوں کی مسافت: اسنوی کی عبارت یہ ہے:مدت سفر مکمل ایک رات اوردن یا دو معتدل دن یا دو معتدل راتیں ہیں‘‘۔
شامیؒ نے وضاحت کی ہےکہ گھنٹوں کے حساب سے سفر شرعی حنفیہ کے نزدیک تقریباً ساڑھے بیس گھنٹے ہوتےہیں (ردالمحتار: ۲؍۱۲۳)۔ بلکہ یہ ناکارہ کہتا ہےکہ سال کے چھوٹے دنوں میں ہندوستان میں فجر کے بعد سے زوال تک روزانہ کے صرف چھ گھنٹے ہوتے ہیں، اورتین دن کا مجموعہ اٹھارہ گھنٹے ہوتے ہیں؛
جبکہ احمد عمیرہؒ کی وضاحت سے معلوم ہواکہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مدت سفر چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں؛
اس سے معلوم ہواکہ ائمہ ثلاثہ کے قول کو میل سے دیکھیں یا گھنٹوں سے بہرحال ان کے نزدیک مسافت سفر حنفیہ سے زیادہ ہے۔
ائمہ ثلاثہ کے نزدیک جو مسافت سفر ہے، اس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی ، ہرزمانے اورہرعلاقے میں ایک ہی مقدار متعین ہوگی۔ ان کی دلیل حضرت ابن عباسؓ کا ارشاد ہے:
لا تقصر الصلاة في أقل من أربعة برد من مكة إلى عسفان. (دارقطني)
’’چاربرید سے کم میں قصر نہیں کیا جائے گا؛ جیسے: مکہ سے عسفان‘‘۔
حنفیہ کہتے ہیںکہ چاربرید متعین نہیں، اس وقت تین دن میں چاربرید طئے ہوجاتا ہوگا؛ اس لئے صحابہ اس مسافت پر قصر کا فتوی دیتے ہوں گے۔واللہ اعلم بالصواب۔
نوٹ: مکہ سے عسفان کا فاصلہ کتنے کلو میٹر ہے، اگر یہ معلوم ہوجائے تو یہ بھی اندازہ قائم ہوسکتاہےکہ برید صحابہ کے زمانہ میں کتنے کلومیٹر کا ہوتا تھا؛ مگر کتابوں سے اس کی حقیقت معلوم کرنا دشوار ہے۔