کلام ہو، تو پیش کرنے کی حاجت نہیں۔ بندہ نے اپنی تحریر شائع کرنے سے قبل دوماہرین فن اورمشہور مفتیان کرام ؛ مولانا محمدعاشق الہی صاحب بلندشہری ثم المدنی اورمفتی عبدالستار صاحب رئیس دارالافتاء خیرالمدارس ملتان سے اس بارے میں استشارہ کیا تھا، ان دونوں حضرات کی بھی مذکورہ دو بنیادی باتوں کی طرف توجہ نہیں گئی؛ بلکہ کلام اکابر میں میل سے میلِ شرعی مراد ہونے پر حضرت گنگوہی قدس سرہ کے فتوی سے استدلال مفتی عبدالستار صاحب ہی نے پیش فرمایا تھا۔ بہرکیف! اب اکابر کی مراد اوران کے فتوی کی بنا واضح ہوگئی، تو میں اپنی تحریر سابق سے رجوع کرتا ہوں؛ جب تک اہل تفقہ علماء حالات زمانہ پر ازسر نو اجتماعی طورپر غورو فکر کرکے کوئی نیا فیصلہ نہیں کرتے، اس وقت تک مسافت سفر حسب ذیل رہے گی: مسافت سفر: ۴۸ میل انگریزی: ۷۷ء۲۴۸۵ کلومیٹر ‘‘۔
(احسن الفتاوی: ۱۰۴، ۱۰۵ ط:ایچ، ایم سعید کمپنی، ادب منزل، پاکستان، طبع یازدہم ۱۴۲۵ھ)
رجوع کی یہ عبارت چونکہ کئی ایک سابقہ ایڈیشنوں میں موجود نہیں؛ اس لیے بعض مفتیان کرام کو اس سے انکار تھا۔ بندہ کو یہ پوری تفصیل ازبر تھی، مگر جب مفتاح الاوزان کی ترتیب کا وقت آیا ، تو عبارت بالا مل ہی نہیں رہی تھی، بڑی حیرانی کا عالم تھا، کئی ایک سے مفتیان کرام سے عرض کیاکہ یہ تفصیل کسی کے نگاہ سے گذری ہو، تو احسان کریں، مگر کوئی اتا پتا نہ ملا ، مجبوراً مولانا رفعت قاسمی صاحب مدظلہ العالی کی ’’مسائل سفر‘‘ سے دارالعلوم کا فتوی نقل کیا، جس میں صاحب احسن الفتاوی کے رجوع کی بات تھی، مگر احسن الفتاوی کا صفحہ نمبر وہاں بھی صحیح درج نہ تھا۔
اب جبکہ مفتاح الاوزان ضروری ترمیم کے ساتھ طبع دوم کے لیے جارہی ہے،
بحمداللہ احسن الفتاوی کا وہ ایڈیشن مل چکا ہے جس کی تلاش تھی؛ اس لیے دارالعلوم دیوبند کا فتوی اوراس سے متعلق تفصیلات حذف کرکے براہ راست احسن الفتاوی کی عبارت لکھدی گئی ہے۔
ان شاء اللہ تعالی اس سے قارئین کی خوب تشفی ہوگی، اوربہت سوں کے شکوک وشبہات دور ہوجائیں گے۔