وہی مراد ہونا چاہئے، پھر تلاش بسیار کے بعدبھی ان کو اکابر دیوبندکے اقوال میں میل انگریزی کی کوئی صراحت نہیں مل سکی؛ بلکہ حضرت گنگوہیؒ اورمفتی عزیرالرحمن صاحب رحہما اللہ کے فتوی میں میل شرعی کا ہی قرینہ غالب ہے؛ اس لئے یہ خیال اورپختہ ہوگیاکہ تمام علمائے کے نزدیک ۴۸ میل شرعی ہی مراد ہے، جس کے ۵۴ میل انگریزی بنتے ہیں(یعنی: ۸۷ کلومیٹر، ۷۸۲میٹر، ۴۰۰ملی میٹر)۔
اورمفتی محمدشفیع صاحبؒ نے جو ۴۸ میل انگریزی کو ہمارے اکابر کی طرف منسوب کیا ہے، وہ نسبت درست نہیں۔یہ صاحب احسن الفتاوی کا خیال تھا؛ چنانچہ وہ خود لکھتے ہیں:
’’اکابر علمائے ہند کی طرف ۴۸ میل انگریزی کا قول منسوب کیا جاتا ہے، مگر اکابر کی تحریرات کے تتبع سے ثابت ہواکہ ان میں مطلق میل کا ذکر ہے، اس کے ساتھ انگریزی کی قید نہیں، اورمتبادر یہ ہےکہ ان کی مراد میل شرعی ہے؛ اس لیے اڑتالیس میل انگریزی کا کوئی ماخذ نظر نہیں آتا،
صرف بہشتی زیور میں انگریزی میل کا ذکر ہے، جو جامع یا بعد کے ناشرین کا تسامح معلوم ہوتا ہے‘‘۔ (احسن الفتاوی: ۴؍۹۵، باب صلاۃ المسافر)
مگر مولانا مہربان علی بڑوتویؒ نے کئی ایک عبارتیں ہمارے اکابر کی ایسی پیش کردیں، جن میں میل انگریزی کی صراحت یا اس کی طرف اشارہ موجود تھا، پھر یہ بھی عقدہ حل کیا کہ ہمارے اکابر کی رائے کی بنیاد سولہ فرسخ والا قول نہیں، بلکہ تین دن کی مسافت والا قول ہے؛ اس لئے مولانا رشید احمد لدھیانویؒ نے اپنے قول سے رجوع فرمالیا؛ مولانا رشید احمد لدھیانویؒ کی عبارت ملاحظہ ہو:
’’حضرت گنگوہی قدس سرہ کے اس فتوی میں اگرچہ عدم تحدید کی طرف اشارہ ہے، مگر چونکہ آپ رئیس الاکابر ہیں؛ اس لیے اس سے یہی سمجھاکہ اس کے بعداکابر نے جو تحدید فرمائی ہے وہ اسی کے مطابق شرعی میل سے ہی ہوگی؛ اسی لیے بندہ نے مراد اکابر سمجھنے کے لیے زیادہ تتبع وجستجوکی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کے بعد دوسرے اکابر کی مرادات سامنے آنے سے معلوم ہواکہ انہوں نے اپنے زمانے کے لوگوں کے قویٰ اورراستوں کے حالات پیش نظر رکھتے ہوے مقدار تحدید سے متعلق اقوال فقہاء رحمہم اللہ تعالی سے ہٹ کر اڑتالیس میل انگریزی سے تحدید فرمائی ہے۔ بہرحال بندہ نے اپنے اشتباہ کی بنا لکھدی ہے؛ اس کی وجہ خواہ قصور عبارت کتاب (جواہرالفقہ) ہو یا قصور فہم بندہ؛ لہذا کسی کو اشتباہ کی تقریرمذکور کے کسی جز میں