لیکن یہ بھی معلوم ہےکہ حضور ﷺ غسل سے پہلے وضو کرتے تھے، اب جس روای نے پانچ مد سے غسل کرنا بیان کیا ہے اس کی مراد یہ ہے پہلے ایک مد سے وضو فرماتے تھے، پھر چارمد سے غسل فرماتےتھے اورجس نے چار مد کہا، اس نے فقط غسل میں استعمال ہونے والے پانی کی مقدار بتائی
(طحاوی: باب الصاع کم ھو)۔
فتوی اس پر ہےکہ وضو اورغسل میں پانی کی کوئی خاص مقدار متعین نہیں، بس اسراف وبخل سے بچنا ضروری ہے۔ لیکن واضح رہےکہ سلف کے قصے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہےکہ وہ حدیث میں بیان کردہ مقدارتک محدود رہنے کی کوشش کرتے تھے، اوراس کو سراہتے تھے، اوراس سے تجاوز کرنے والے پر نکیر کرتے تھے؛ مسند احمدؒ کی روایت ہے:
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِىٍّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ َنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُفْرِغُ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثاً، قَالَ شُعْبَةُ : أَظُنُّهُ فِي الْغُسْلِ مِنْ الْجَنَابَةِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِى هَاشِمٍ: إِنَّ شَعْرِى كَثِيرٌ، فَقَالَ جَابِرٌ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَكْثَرَ شَعَراً مِنْكَ وَأَطْيَبَ.
(مسند احمد، حدیث رقم:۱۴۱۸۸)
’’حضرت جابرؓ نے فرمایاکہ رسول اللہ ﷺ سر پر تین لپ پانی ڈالا کرتے تھے، شعبہؒ کہتے ہیں کہ میرے خیال سے غسل جنابت میں ایسا کرتے تھے، اس پرایک ہاشمی مرد نے یوں کہاکہ میرے بال تو بہت زیادہ ہیں (یعنی میرا کام تین لپ سے نہ بنے گا) حضرت جابرؓ نے فرمایا: رسول اللہ کے بال تجھ سے زیادہ تھے اوراچھے تھے (جب بھی تین لپ ہی پر اکتفا کرتے تھے)۔
سنن ابن ماجہ میں صحیح سند حضرت ابوسعید خدریؓسے (ص:۴۳میں) اورحضرت ابوہریرہ ؓسے (ص:۴۴میں) بھی اسی طرح کا سوال وجواب مروی ہے ۔
(دیکھیے: باب الغسل من الجنابۃ)
نسائی کی سنن کبریٰ (حدیث نمبر: ۲۳۳)میں یہ بھی مروی ہے:
عن أبي جعفر قال: تمارينا في الغسل عند جابر بن عبد الله، فقال جابر: يكفي من الغسل من الجنابة صاع من ماء، قلنا: ما يكفي صاع ولا صاعان، قال جابر: قدكان يكفي من كان خيرا منكم وأكثر شعرا