فرق ائمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق تین صاع کا ہوتا ہے؛ حدیث میں بھی فرق کو تین صاع ہی بتلایا گیا ہے؛ بخاری ومسلم میں روایت ہے:
حَدَّثَنِى كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ ؓ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَقَفَ عَلَيْهِ وَرَأْسُهُ يَتَهَافَتُ قَمْلاً فَقَالَ: أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّكَ؟ قُلْتُ نَعَم، قَالَ: فَاحْلِقْ رَأْسَكَ. قَالَ فَفِىَّ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ (فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ) فَقَالَ لِى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ صُمْ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ أَوْ تَصَدَّقْ بِفَرَقٍ بَيْنَ سِتَّةِ مَسَاكِينَ أَوِ انْسُكْ مَا تَيَسَّرَـ (مسلم، کتاب الحج، باب جواز حلق الرأس للمحرم، بخاری، باب قول الله تعالى:{أو صدقة}وهي إطعام ستة مساكين)
’’عبدالرحمن بن ابی لیلیٰؒ کہتے ہیںکہ مجھ سے حضرت کعبؓ بن عجرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس حال میں دیکھاکہ ان کا سر جوؤں سے بھرگیا تھا، آپ نے پوچھا کہ یہ کیڑے تمہیں تکلیف دے رہے ہیں؟ میں نے کہا ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تو سر منڈادو۔
حضرت کعبؓ کہتے ہیںکہ یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی فمن کان منکم مریضاً الایۃ
اس وقت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(بحالت احرام سرمنڈانے کے فدیہ میں) تین روزے رکھ لو، یاایک فرق غلہ چھ مسکینوں کو دیدو، یا جو میسر ہو قربانی کرو‘‘۔
بخاری ومسلم میں اسی روایت کے دوسرے طریق میں یہ وضاحت بھی ہے
کہ ایک فرق تین صاع کا ہوتا ہے؛ چنانچہ بخاری میں ہے:
فقال: فصم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين لكل مسكين نصف صاع
( باب الاطعام فی الفدیۃ نصف صاع)
’’فرمایا: تین روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو کھانا دو؛ ہر مسکین کو نصف صاع‘‘۔
اورمسلم (باب سابق) میں ہے:وَالْفَرَقُ ثَلاَثَةُ آصُعٍ (فرق تین صاع کا ہوتا ہے)؛ اسی لئے تمام ائمہ کا اتفاق ہےکہ فرق تین صاع کا ہوتا ہے۔ لیکن صاع کتنے رطل کا ہوتا ہے؟ اس کی تحقیق پہلے گذرچکی کہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک ایک صاع پانچ رطل اورایک تہائی رطل کا ہوتا ہے؛ لہذا تین صاع سولہ رطل کا ہوگا۔ ائمہ ثلاثہ