اب سمجھیے کہ امام ابویوسفؒ کیا کہنا چاہتے ہیں، عبارت ذرا دقیق ہے؛ وہ فرمارہے ہیں کہ صاعِ نبوی ﷺ پانچ رطل اورتہائی رطل کا تھا، مگر ساتھ یہ بھی فرمارہے ہیںکہ صاع نبوی صاع حجاجی کے مساوی تھا، اورگذشتہ صفحات میں معلوم ہوچکاکہ صاع حجاجی آٹھ رطل عراقی کے برابر ہوتا ہے۔اس سے معلوم ہو
کہ صاع نبوی آٹھ رطل کا تھا۔ دوسری بات ابویوسفؒ نے یہ کہی کہ صاع نبوی ﷺ ربع ہاشمی کے مساوی تھا، اورپہلے مختوم ہاشمی ۳۲ رطل کا ہوتا تھا، تو اس کا ربع آٹھ رطل ہوگا۔ اس سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ صاع نبوی آٹھ رطل عراقی کا تھا۔ الحاصل خودامام ابویوسفؒایک ہی عبارت میں صاع کو آٹھ رطل بھی کہہ رہے اورپانچ رطل بھی اوریہ اسی توجیہ پر ممکن ہےجو ابھی علامہ زیلعیؒ کے حوالہ سے مذکور ہوئی۔
واضح رہےکہ صاع ، قفیز اورمختوم کے الفاظ کبھی ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں
(دیکھیے: مختوم اورقفیز کی بحث)؛ چنانچہ امام ابویوسفؒ نے جو یہ کہا کہ پہلے مختوم (قفیز)ہاشمی ۳۲ رطل کا تھا؛
اس کا مطلب یہ ہےکہ بعد میں چل کر مختوم (قفیز) ہاشمی کا وزن بدل گیا اور قفیز کے بیان میں آئےگاکہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں قفیز ہاشمی ایک صاع حجاجی کے مساوی تھا، گویا یہ تبدیل شدہ مختوم (قفیز) ہاشمی تھا۔ربع ہاشمی کا اصل مطلب ہے:قدیم مختوم ہاشمی کا چوتھائی ، اس کو فقہ کی کتابوں میں ربع الہاشمی (اضافت کے ساتھ) اورالربع الہاشمی (ترکیب توصیفی کیساتھ) دونوں طرح لکھا گیا ہے؛ دیکھیے:
امام سرخسی مبسوط (۱۵؍۱۷۷، کتاب الاجارات)میں لکھتے ہیں:
ولو أعطى صباغا ثوبا ليصبغه بعصفر بربع الهاشمي بدرهم، فصبغه بقفيز عصفر۔۔۔ ومعنى هذه المسألة أن الربع الهاشمي هو الصاع، وهو ربع قفيز؛ فكأنه أمره بأن يصبغه صبغا غير مشبع؛ وقد صبغ صبغا مشبعا
’’اگر رنگریز کو کپڑا دیا تاکہ وہ ایک درہم اجرت لے کر قفیز ہاشمی کے چوتھائی مقدار کسم سے رنگ دے؛ لیکن اس نے پورے ایک قفیز سے رنگ دیا (تو ضمان لازم ہوگا) اس کی وجہ یہ ہےکہ ربع ہاشمی ایک صاع ہوا، اورصاع: قفیز ہاشمی قدیم کا چوتھائی ہوتا ہے، تو گویا مالک نے یہ کہا تھا کہ (رنگ کم استعمال کرے تاکہ) رنگ گہرا نہ ہو، اوررنگریز نے رنگ (زیادہ ڈال کر) گہرا کردیا‘‘۔
اس عبارت میں ’’ربع الہاشمی‘‘ اور’’الربع الہاشمی‘‘ ایک ہی معنی میں ہے۔ نیز علامہ سرخسیؒ کی اس عبارت نے یہ بھی واضح کردیاکہ ربع ہاشمی صاع کو کہتے ہیں۔اوریہ بھی بتلایاکہ صاع قفیز کا چوتھائی ہوتا ہے؛