یعنی تین کلو سے اوپر ہونا چاہئے؛ حالاںکہ ان کے یہاں بھی صدقہ فطر ہمارے صدقہ فطر کے قریب قریب ہے؛ اس سے معلوم ہواکہ ائمہ ثلاثہ کا صاع ضرور چھوٹا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے؛
کیونکہ حنفیہ کی طرح شافعیہ وغیرہ نے بھی صاف لکھا ہےکہ مد اورصاع کے حساب میں ان کے یہاں بھی رطل عراقی ہی معتبر ہے؛ چنانچہ شافعی مسلک کی مشہور کتاب تحفۃ المحتاج میں ہے:
والصاع أربعة أمداد ، والمد رطل وثلث وقدرت بالبغدادي ؛ لأنه الرطل الشرعي
(تحفۃ المحتاج، باب زکوۃ النبات)
’’صاع چار مد کا ہوتا ہے، اورمد ایک رطل اورتہائی رطل کا ہوتا ہے، اورصاع کو رطل بغدادی (عراقی) سے ناپا گیا ہے؛ کیونکہ رطل شرعی وہی ہے‘‘۔
اسی طرح مشہور حنبلی فقیہ ابن قدامہؒ ’’المغنی ‘‘میں لکھتے ہیں:
وبينا أنه خمسة أرطال وثلث بالعراقي (۵: ۳۰۱)
’’ہم بتاچکے ہیں کہ صاع پانچ رطل اورتہائی رطل عراقی کے مساوی ہے‘‘
اس طرح ائمہ ثلاثہ کا صاع حنفیہ کے صاع سے ایک رطل دوثلث چھوٹا ہوجاتا ہے۔ نیزائمہ ثلاثہ کا صاع اس وجہ سے بھی مزید چھوٹا ہوجاتا ہےکہ ان کے نزدیک درہم ستر جو کا نہیں، بلکہ پچاس جواوردو خمس جو کا اوردینار صرف بہتر جوکا ہوتا ہے؛ صاوی اورفواکہ دوانی وغیرہ کئی ایک معتبر کتب میں یہی لکھا ہوا ہے:
لأن وزن الدرهم كما تقدم خمسون وخُمُسا حَبَّةٍ من الشعير المتوسط، وكل دينار وزنه اثنتان وسبعون شعيرة (الفواکہ الدوانی: ۲: ۷۴۹)
’’درہم کا وزن متوسط جو سے پچاس جو، اوردو خمں جو کا ہوتا ہے، اوردینار کا وزن بہتر جو کا ہوتا ہے‘‘
مزید حوالے دینار کی بحث میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ جبکہ حنفیہ کے نزدیک درہم ستر جوکا اوردینار سو جو کا ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ ہواکہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک اول تو صاع پانچ رطل اورتہائی رطل کا ہے، اوران کارطل بھی اگرچہ حنفیہ کی طرح نوے دینار کا ہے، مگر ان کا دینار حنفیہ کے دینار سے تقریباً اٹھائیس جو چھوٹا ہے؛
اس طرح حنفیہ کے نصف صاع اورائمہ ثلاثہ کے ایک صاع میں کچھ زیادہ تفاوت باقی نہیں رہتا۔