جس کو نوویؒ وغیرہ نے اصح کہا ہے؛ یعنی: ۱۲۸ درہم اورچاربٹہ سات درہم۔
اسی طرح جس نے رطل کونوے مثقال کہا، اس نے اصل وزن کو لیا ، اور جس نے اکیانوے کہا، اس نے اضافہ شدہ وزن لیا جو تقریبی ہے۔
تقریرات رافعیؒ میں علامہ شامیؒ پر نقد کرتے ہوئےرطل کو اکیانوے مثقال لکھا ہے، اس سے صاحب احسن الفتاوی کووہم ہوا اورانہوں نے اپنے رسالہ ’’بسط الباع لتحقیق الصاع‘‘ میں اسی کو تحقیقی وزن خیال کرلیا؛ حالاں حقیقت اس کے برعکس ہے۔
اب درہم کے وزن کو ۱۲۸، ۷؍۴ سے ضرب دیں یا دینار کے وزن کو ۹۰ سے مجموعہ وہی ہوگا
جو اوپر لکھا گیا ہے۔
مفتی شفیع صاحبؒ نے ۱۳۰ درہم کے اعتبار سے تولہ نکالا ہے؛ اس لئے ۳۴ تولہ دیڑھ ماشہ ہوگیا ہے، اورمولانا مہربان علیؒ نے اسی کو گرام میں تبدیل کیا ہے؛ اس لیےان کا وزن ۳۹۷ گرام سے بڑھ گیا ہے؛ حالاںکہ ۱۳۰ درہم:رطل کا تقریبی وزن ہے، تحدیدی نہیں۔
اگر رطل کا تحقیقی وزن لیں تو درہم اوردینار دونوں سے رطل کا گرام اورتولہ ایک ہی آئےگا، سرمو کے برابر بھی فرق نہ ہوگا؛ جیساکہ مولانا رشید احمدلدھیانویؒ اورمولانا ابوالکلام مظاہری مدظلہ العالی صاحب نے بھی وضاحت فرمائی ہے۔
ایک اصول یاد رکھنا چاہیےکہ فقہاء کے یہاں وہی درہم ودینار معتبر ہیں، جو وزن سبعہ کے مطابق ہوں؛ یعنی دس درہم سات دینار کے برابر ہوجائے۔
اگرکسی کے حساب میں یہ تناسب باقی نہ رہے،تو اس کا حساب غلط مانا جائے گا؛
چنانچہ علامہ زیلعیؒ لکھتے ہیں:
قولہ:(وفی الدراہم وزن سبعۃ، وہو أن تکون العشرۃ منھا وزن سبعۃ مثاقیل) أی یعتبر أن یکون کل عشرۃ درھم وزن سبعۃ مثاقیل (تبیین الحقائق: ۲؍۷۵)
’’درہم میں وزن سبعہ معتبر ہے؛ یعنی: وہ درہم جس میں سے دس درہم سات دینار کے برابر ہوجائے‘‘
یہی بات ظہیریہ، اختیار اورمبسوط میں بھی مذکور ہے، اوریہ وزن صحابہ کرام کا طئے کردہ ہے ۔
(حاشیہ شلبی علی الزیلعی: ۲؍۷۵،۷۶)