قال في الغاية: والرطل البغدادي مائة وثمانية وعشرون درهما وأربعة أسباع درهم، وقيل: مائة وثمانية وعشرون، وقيل: مائة وثلاثون درهما، قال النووي: الأول أصح (حاشیۃ شلبی علی الزیلعی: ۲؍۱۳۹باب صدقۃ الفطر، ط: زکریا)
’’غایۃ البیان میں (اتقانی نے)کہا ہےکہ رطل بغدادی ایک سو اٹھائیس درہم اورچار بٹہ سات درہم (درہم کے سات حصوں میں سے چار حصوں کا) نام ہے، بعض صرف ۱۲۸ درہم، اوربعض ۱۳۰ درہم کہتے ہیں ؛ نووی کہتے ہیں کہ پہلا قول اصح ہے‘‘۔
اسی طرح ائمہ ثلاثہ کے یہاں بھی یہ تینوں اقوال ملتے ہیں۔ مگر سب کے یہاں اصح وہی ہے، جس کوامام نووی شافعیؒ نےاصح کہاہے، اورحنفی فقیہ امیر کاتب اتقانیؒ نے غایۃ البیان میں جس کی تائید کی ہے۔
یہ تو اس کا بیان تھاکہ رطل کتنے درہم کا ہوتا۔ اس میں بھی اختلاف ہےکہ رطل کتنے مثقال کا ہوتا ہے؛ یہاں اکثر حضرات نوے مثقال لکھتے ہیں، جن میں علامہ شامیؒ بھی ہیں، تقریرات رافعی میں اکیانوے مثقال لکھا ہے۔
موفق الدین ابن قدامہ حنبلیؒ نے شرح کبیر میں جو تفصیل لکھی ہے اس سے اختلاف کی پوری حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے؛ فرماتے ہیں:
والرطل العراقي مائة وثمانية وعشرون درهما وأربعة أسباع درهم، ووزنه بالمثاقيل تسعون، ثم زيد في الرطل مثقال واحد، وهو درهم وثلاثة أسباع، فصار أحدا وتسعين مثقالا، وكمل وزنه بالدراهم مائة وثلاثون درهما، والاعتبار به قبل الزيادة (الشرح الکبیر:۲؍۵۵۶)
’’رطل عراقی ۱۲۸درہم اورچارسبع (چار بٹہ سات) درہم کا ہوتا ہے اورمثقال سے اس کا وزن نوے مثقال ہوتا ہے، پھر رطل میں (حساب میں آسانی کے لیے) ایک مثقال کا اضافہ کیا گیا اور ایک مثقال ایک درہم اورتین سبع (تین بٹہ سات) درہم کا ہوتا ہے؛ اس طرح رطل اکیانوے مثقال کا بن گیا اوردرہم سے اس کا وزن ایک سو تیس مکمل ہوگیا؛ لیکن (شرعی حسابات) میں اس رطل کا اعتبارہے جو اضافہ سے پہلے تھا‘‘۔
گویا جس نےرطل کو ۱۲۸درہم کہا اس نے کسر حذف کردیا، جس نے تیس کہا اس نے وہ وزن بتایا جو حساب میں آسانی کے لئے زیادہ کیا گیا تھا، لہذا یہ دونوں وزن تقریبی ہیں، تحقیقی وزن وہی ہے،