ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
المرء بسکّین أو بإطلاق الرصاص ، فکذٰلک الصورۃ قد نھیٰ الشارع عن صنعھا و اقتنائھا، فلا فرق بینما کانت الصورۃ قد اتخذت بریشۃ المصور أو بآلات الفوتو غرا فیۃ ‘‘۔ ترجمہ: یعنی واقعہ یہ ہے کہ ہاتھ سے بنائی جانے والی تصویر اور عکسی تصویر کے مابین فرق کرنا، کسی قوی اصول پر مبنی نہیں ہے اور یہ بات شرعاًطے ہے کہ جو چیز اصل اعتبار سے حرام یا غیر مشروع ہے، اس کا حکم آلات کے بدل جانے سے نہیں بدلتا ،مثلاً :شراب حرام ہے ،خواہ ہاتھ سے بنائی جائے یا جدید مشینوں کے ذریعے بنائی جائے اور قتل حرام ہے، خواہ آدمی چھری سے اس کو انجام دے یا بندوق کی گولی سے ، اسی طرح تصویر ہے کہ شارع نے اس کو بنانے اور رکھنے سے منع فرمایاہے ،پس اس میں کوئی فرق نہیں کہ تصویر ،تصویر بنانے والے کے قلم سے بنائی جائے یا فوٹو گرافی کے آلات سے بنائی جائے۔(۱) حضرت مولانا موصوف نے اس عبارت میں جو بات ارشاد فرمائی ہے ، بعینہٖ وہی بات ’’ٹی- وی‘‘ اور’’ ویڈیو‘‘ کی تصویر پر بھی صادق آتی ہے؛کیوں کہ ان میں بھی تصویر ہوتی ہے اور وہ’ ’الکٹرانک آلات‘‘ کے واسطے سے ٹی- وی کے پردے پر ظاہر ہوتی ہے، تو اس واسطے اور آلے کے بدل جانے سے حکم میں کوئی فرق نہ ہونا چاہیے ۔ اسی طرح مولانا کا یہ فرمانا کہ’’ ویڈیو میں تصویر محفوظ نہیں ہوتی‘‘ ، صحیح نہیں ہے؛ بل کہ محفوظ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے موقعے پر اس کو دیکھا جا سکتا ہے ، چاہے اس کے محفوظ ہونے کی شکل کچھ بھی ہو ۔ ------------------------- (۱) تکملۃ فتح الملھم:۴؍۱۶۳