ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
تھی اور اس دلیل کا حشر دیکھ لیا گیا اور جواز کی کوئی اور دلیل ہے نہیں ،اس لیے یہ بھی ناجائز ہے۔ٹی- وی اور برقی ذرات جو حضرات ٹی-وی کی صورتوں کو مطلقاً (خواہ بہ راہِ راست نشر کی جائیں یا (۱) آلاتِ جدیدہ کے شرعی احکام:۱۴۱ -۱۴۴ بالواسطہ نشر کی جائیں )عکس مانتے ہیں اور ان صورتوں کو ’’برقی ذرات ‘‘ کا ایک مرتب مجموعہ قرار دیتے ہیں ، وہ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ٹی- وی‘‘ کے پردے پر محض’’ برقی ذرات ‘‘کا ایک تسلسل ہوتا ہے، جو دیکھنے والے کی آنکھوں کو تصویر کی شکل میں نظر آتا ہے ، ورنہ وہاں حقیقت میں کوئی تصویر نہیں ہوتی ،ان حضرات نے اس قسم کی تصاویر کو پانی اور آئینے کے عکس پر قیاس کیا ہے،کہ جس طرح یہ جائز ہے، اسی طرح ٹی- وی کی تصویر بھی ’عکس ‘ہونے کی وجہ سے جائز ہونا چاہیے ۔مباشر و غیر مباشر پروگرا م کا حکم ؟ اور جو حضرات ٹی- وی کے پرگرموں میں مباشر و غیر مباشر کی تفریق کے قائل ہیں ، ان کی دلیل یہ ہے کہ مباشر پروگرام میں چوں کہ پہلے سے کوئی فلم اور نگیٹیو(Nagetive) نہیں بنائی جاتی؛اس لیے اس پر دکھائی دینے والی تصاویر عکس کے حکم میں ہیں اور غیر مباشر پروگرام میں چوں کہ اولاً فلم اور نگیٹیو بنائی جاتی ہے، پھر اسی کی مدد سے پروگرام نشر کیا جاتا ہے ؛اس لیے ٹی- وی کی صورتوں کو بھی اسی کا حکم دیتے ہوئے تصاویر قرار دیا جائے گا ۔ مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی زید مجدہم نے لکھا ہے کہ ’’ٹی- وی پر ذی روح کی تصویر اگر نگیٹیو لینے کے بعد اس کے ذریعے