ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
قرآن وحدیث میں ہر پیش آنے والے مسئلے کا صریح حکم ملنا ضروری نہیں ؛بل کہ ان میں جو اصول وکلیات ضوابط وقواعد بیان کیے گئے ہیں ، ان میں غور وخوض اور تأمل وتفکر سے اس کا حکم معلوم کیا جاسکتا ہے اور یہی معنی ہیں دینِ اسلام کے مکمل ہونے کے اور یہی مقصد ہے امام شافعی کے اس قول کا کہ ’’ہر پیش آنے والی بات کا حکم اللہ کی کتاب میں مل جاتا ہے‘‘ یعنی اصول وکلیات سے اس کا حکم معلوم ہوجاتا ہے۔کیا اسلام نے ٹی- وی کا حکم بیان کیا ہے؟ مذکورالصدر وضاحتوں کے بعد اب اس سوال پر غور کیجیے کہ کیا اسلام نے اس نوایجاد آلہ’’ ٹیلی ویژن ‘‘ کا حکم بیان کیا ہے؟ اس کے جواب میں سوائے اثبات (ہاں ) کے کوئی اور جواب ان حضرات کے نزدیک نہیں ہوسکتا ،جو اوپر پیش کردہ’’ تکمیل ِدین ‘‘ کی حقیقت پر ایمان ویقین رکھتے ہیں اور اس جواب پر دینِ اسلام کی تکمیل پر عقیدہ رکھنے والے کوئی دوافراد بھی اختلاف نہیں کرسکتے؛ لیکن جیسا کہ عرض کرہی چکا ہوں ، اس نو ایجاد آلے کا صاف وصریح حکم تعلیمات ِقرآن وحدیث اورارشاداتِ صحابہ وتابعین میں نہیں ملتا؛بل کہ اس کا حکم اصول وکلیات سے معلوم کیا جائے گا۔ اب رہی یہ بات کہ اس بارے میں کیا حکم پایا جاتا ہے ؟ جواز و اباحت کا یا عدمِ جواز و کراہت و حرمت کا؟ اس بات کو معلوم کرنا بہت زیادہ مشکل نہیں ؛بل کہ یہ بات ان لوگوں کے لیے بہت آسان ہے ،جو قرآن وحدیث کی ہمہ گیر تعلیمات ،دینِ اسلام کے لطیف مزاج،رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوۂ حسنہ وسیرتِ طیبہ سے بہ خوبی واقفیت اور ان میں گہری اور عمیق بصیرت رکھتے ہیں ؛ ہاں ! جو لوگ ان چیزوں سے خالی وعاری اور تہی دامن ہوتے ہیں ،ان کے لیے اس معمے کو حل کرنا صرف یہی نہیں کہ مشکل ہے ؛بل کہ ایسے