ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
اور فقہِ اسلامی وغیرہ دینی امور کو بھی شامل کیا گیا،تو مسلمان خوش ہوگئے اور علما کے سامنے صورت ِحال رکھ کر ان چیزوں کو’’ ریڈیو ‘‘سے سننے کے متعلق فتویٰ لیا گیا ، حضراتِ علما نے کڑی شرطوں اور سخت قیود کے ساتھ ان مخصوص پروگراموں کے جواز کا فتویٰ دیا؛ مگر کیا لوگ ان حدود وقیود اور شرائط کے پابند رہے؟ اور کیا بات ان جائز پروگراموں تک محدود رہی ؟ ہر گز نہیں !بل کہ اب قرآن اور دینی امور کو’’ ریڈیو‘‘ سے سننے کا رواج ہی تقریباً ختم ہوگیا اور وہ صرف گانے بجانے اور واہی تباہی چیزوں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے، مگر نام اب بھی یہی ہے کہ’’ ریڈیو جائز ہے‘‘۔ خلاصہ یہ ہے کہ عوام حدود وقیودکی پرواہ نہیں کرتے اور نہ کرسکتے ہیں ، اس لیے اسلام ایسے مواقع پر فی نفسہٖ حلال چیزوں کو بھی ناجائز قرار دیتا ہے تا کہ حرام میں ابتلا نہ پیش آئے۔جدت پسندوں کی ایک غلط فہمی یہاں جدت پسند طبقے کی ایک غلط فہمی کا ازالہ کردینا بھی مناسب ہوگا، وہ یہ کہ بہت سے جدت پسند لوگوں کو دیکھا گیاہے کہ وہ ٹی- وی کے ناجائز ہونے کا فتویٰ سن کر کہتے ہیں کہ علما شروع میں ہر چیز کو حرام کہتے ہیں ، پھر خود ہی اسے حلال کردیں گے، جیسے ریڈیو کو بھی پہلے حرام کہا تھا، پھر حلال کہہ دیا ۔ مگر جو صاحب ِعقل ہوگا،وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات ان روشن خیالوں کی تاریک خیالی کا نتیجہ ہے، ورنہ علما نے کبھی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں بتایا ؛بل کہ جب ریڈیو کی خرافات دیکھی توحرام قرار دے دیا اور وہ سب چیزیں آج بھی حرام