ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
فکری اور بدعات و محدثات سے دوررہنا بھی ضروری ہے اور جب تک اس کی تحقیق نہ ہو، کسی کو دین کا رہبر مان لینا اور اس سے علمِ دین حاصل کرنا دین و ایمان کے لیے خطرہ ہے۔ اب ذرا سوچیے کہ کیا ٹی- وی یا کیو - ٹی- وی سے قرآن و حدیث اور دیگرعلومِ دینیہ کا حاصل کرنا، اس اصول پرپورا اُترتا ہے؟ کیا اس کے پردے پر آنے والی شخصیات کا علم و عمل ،نظر و فکر ،تقویٰ و پرہیزگاری وغیرہ امورمیں قابلِ اعتبار و لائقِ اعتماد ہونا مسلم و معروف ہے؟ ظاہر ہے کہ اس اصول پر یہ چیز منطبق نہیں ہوتی۔ منطبق تو کیا ہوتی؛بل کہ ہمیں یہ ’’کیو۔ٹی-وی‘‘ دیکھنے والے بعض لوگو ں سے معلوم ہواکہ اس میں داڑھی کٹے ہوئے اور وضع قطع کے لحاظ سے غیر متشرع لوگ بھی پیش کیے جاتے ہیں اور وہ وعظ و تقریر کرتے ہیں ۔دینی اصطلاحات میں رد و بدل ۴- اس سلسلے کی ایک بہت ہی خطرناک چیز یہ ہے کہ کیو۔ ٹی- وی میں استخارے کے نام پر فال کھولاجاتا ہے، جس کو عربی میں ’’ کہانت‘‘ کہا جا تا ہے اور وہ اسلام میں ناجائز ہے ۔ یاد رکھیے کہ یہاں بات صرف یہ نہیں ہے کہ فال کھولا جا رہا ہے؛بل کہ یہاں ایک خالص غیر اسلامی چیز یعنی ’’ فال‘‘ (کہانت ) کو ایک خالص اسلامی اصطلاح یعنی ’’ استخارے‘‘ کا نام دے کر دین میں تحریف کی جا رہی ہے اور لوگ فال کو’’ استخارہ‘‘ سمجھ کر اس کو اختیار کر رہے ہیں ۔ ’’استخارے‘‘ کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی معاملہ اور مسئلہ ایسا پیش آجائے،جو انسان کو متذب ذب اور پریشان کردے، تو اس سلسلے میں اللہ