ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
یہ سمجھ میں آتا ہے کہ تصویر اسی وقت تصویر ہے،جب کہ اس کے آلے میں بھی وہ اسی طرح نظر آئے، جس طرح آلے سے باہر نظر آئے، حال آں کہ یہ بات خود ایک دعویٰ ہے، جو محتاجِ دلیل ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ۵-پانچویں اس لیے کہ اصل چیز جس کو دیکھنا ہے، وہ نتیجہ اور مقصد ہے ،نہ کہ ذرائع و وسائل؛کیوں کہ ذرائع ووسائل کچھ بھی ہوں ،ان کی مستقل کوئی اہمیت نہیں ، اصل یہ دیکھنا ہے کہ وہ چیز جو ان ذرائع سے حاصل کی جارہی ہے، وہ کیا ہے ؟ اس اصول پر ویڈیو(Video) کے بارے میں یہ کہنا کہ’’ اس میں برقی ذرات ہوتے ہیں اور اس میں دور بین سے بھی دیکھا جائے، تو اس میں کوئی تصویر نہیں ملے گی ، اس لیے اس کی تصویر تصویر نہیں ‘‘ نہایت ہی قابلِ تعجب بات ہے ؛ کیوں کہ جب’ ویڈیو‘ کو چلایا جاتا ہے، تو اس میں جو نظر آتا ہے، وہ آخر اس کے اندر ہی تو تھا ،جو اب باہر نظر آرہا ہے ؟ اگر اس میں پہلے سے یہ نہیں تھا ، تو اب کہاں سے آگیا؟ معلوم ہوا کہ اس میں یہ محفوظ تھا، مگر دوسری شکل میں تھا اور وہی محفوظ چیز اب باہر اسکرین پر نظر آرہی ہے اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ذرائع و وسائل کیسے بھی ہوں اور اس میں جس طریقے سے چاہے کام کیا جائے ،اس سے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا ، جیسا کہ سب کو معلوم ہے اور خود حضرت مولانا نے اس بات کو کیمرے کی تصویر کے بارے میں تسلیم کیا ہے ؛چناں چہ آپ نے’’ تکملۃ فتح الملھم ‘‘ میں فرمایا کہ ’’والواقع أن التفریق بین الصورالمرسومۃ والصور الشمسیۃ لاینبغي علٰی أصل قوي ، ومن المقرر شرعاً أن ما کان حراما أو غیر مشروع في أصلہٖ لا یتغیر حکمہ بتغیر الآلۃ ؛ فالخمر حرام سواء خمّرت بالید أو بالماکینات الحدیثۃ ، والقتل حرام سواء باشرہ