ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا والی حدیث، جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے، اس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پردے پر بھی نکیر فرمائی تھی، جس میں بہ طورِ نقش تصویر بنی ہوئی تھی ، جس سے اس کا بھی ناجائز ہونا معلوم ہوتا ہے ؛ اس لیے اب علما کو اس کی ضرورت پڑی کہ جس حدیث میں ’’ إلا رقما ‘‘ کا استثنا آیا ہے ،اس کی تاویل کریں ، تا کہ دونوں احادیث میں جمع و تطبیق ہو جائے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ غیر مجسم تصاویر اور مجسم تصاویر دونوں کا جمہور کے نزدیک ایک حکم ہے اور جو بعض سلف سے غیر مجسم تصاویر کا جواز معلوم ہوتا ہے، وہ یا تو باطل ہے جیسا کہ علامہ نووی رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا ،یا مرجوح و ضعیف ہے جیسا کہ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی ؒنے فرمایا ؛ اس لیے اس پر اعتماد کرنا اور تصاویرِغیر مجسمہ کو جائز قرار دینا صحیح و درست نہ ہوگا ، کیوں کہ علما نے تصریح کی ہے کہ مرجوح و ضعیف اقوال سے استدلال کرنا جائز وصحیح نہیں ہے۔ الغرض! تصاویر مجسم ہوں یا غیر مجسم دونوں ہی اسلام میں ناجائز ہیں اور یہی جمہور علما کا فیصلہ ہے ۔کس قسم کی تصاویر جائز ہیں ؟ یہاں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں تک تصویرسازی کا مسئلہ ہے ،تو اس باب میں علما نے وضاحت کردی ہے کہ ہر قسم کی تصویر سازی ناجائز ہے؛یعنی کسی بھی قسم کی تصویر بناناجائز نہیں اور رہا تصویر کے استعمال کا مسئلہ، تو اس میں اکثر علما نے بعض قسم کی تصاویر کے استعمال کو حرمت سے مستثنیٰ کیا ہے۔ ایک تو ایسی تصاویر کو جائز قرار دیا ہے، جو عادتاً پامال ہو تی ہیں ، جیسا کہ اوپر کی عبارات میں اس کا بھی ذکر گزرا ہے اور اس کی دلیل چنداحادیث ہیں : ۱ ------------------------- (۱) فتح الباري: ۱۰؍۳۹۰ (۲) التصویر لأحکام التصویر مندرجہ جواہر الفقہ:۳؍۱۹۲