ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
سے شمار ہوتاہے ، ورنہ تو زہر اور مہلک اشیا میں سے بھی کوئی چیز ایسی نہیں ، جس میں کوئی فائدہ و نفع ہی نہ ہو۔ آگے وہ مزیدوضاحت کرتے ہوئے اس سلسلے میں ایک اصول و ضابطہ تحریر فرماتے ہیں : إن اللَّھوَ علٰی أنواع: لھومجرد ، ولھو فیہ نفع و فائدۃ ؛ ولٰکن ورد في الشرع نھي صریح عنہ ۔ ولھو فیہ فائدۃ ولم یکن یرد فی الشرع نھی صریح عنہ ولٰکن ثبت بالتجربۃ أنہ یکون ضررہ أعظم من نفعہ ملتحق بالنھي عنہ ۔(۱) ترجمہ: لہو و لعب کی چند اقسام ہیں : ایک محض لہو ولعب (جس میں کوئی نفع کا پہلو نہ ہو)دوسرے وہ لہو، جس میں نفع تو ہو؛ لیکن شریعت میں اس سے صراحۃً نہی و منع وارد ہو اور تیسرے وہ، جس میں نفع ہواور شرع میں اس سے صراحت سے منع بھی نہ کیا گیا ہو؛لیکن تجربے سے اس کا نقصان اس کے نفع سے بڑھا ہوا ہو، تو یہ بھی منع کے ساتھ ملحق ہے ۔مضر پہلو اس توضیح کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ اب بحث کا مرکزی نقطہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس پروگرام میں افادیت ونافعیت ہے یا نہیں ؟بل کہ یہ ہونا چاہیے کہ اس میں مفاسد ومضرات ہیں یا نہیں ؟ اور یہ بات آسانی کے ساتھ معلوم ہوسکتی ہے ؛ کیوں کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ٹی- وی اسکرین پر پروگرام کے اندر مردوں یا عورتوں کی یا ------------------------------------ (۱) احکام القرآن للجصاص: ۳/۲۰۱