ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
ہوتی ہے ؛کیوں کہ اس سے نتیجۃً گمراہی اور دین سے مذاق کی نوبت آہی جاتی ہے اور اس آیت میں ’’لام‘‘کو لامِ عاقبت قراردینا بعض علما سے منقول ہے۔(۱) ۳-تیسرا جواب یہ ہے کہ مذکورہ سوال اس وقت پیدا ہوتاہے جب کہ’’ یتخذوھا ‘‘ میں ’’ ھا ‘‘ ضمیر کو’’ آیات اللّٰہ ‘‘سے کنایہ قرار دیاجائے یا ’’ سبیل اللّٰہ‘‘ کی طرف اس کو راجع کیا جا ئے، جیسا کہ اکثر مفسرین نے کیا ہے؛ لیکن اگر ’’ھا‘‘ ضمیر سے ’’حدیث ِلہو‘‘ مراد لیا جائے،جس کا ذکر آیت میں ہے اور حدیث سے اس کی جمع احادیث مراد لی جائے اور یہ مطلب لیا جائے کہ ’’ بعض لوگ’’ لہو الحدیث ‘‘ اس لیے خرید تے ہیں کہ لوگوں کو گمراہ کریں اور اس لیے کہ ان (کھیل کی باتوں ) کو مذاق وٹھٹا بنائیں ‘‘۔ تو سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ( کما ھو ظاھر جداً لِمَن تدبر وتفکر) چناں چہ مذکورہ تاویل بعض اہلِ علم حضرات سے منقول ہے ۔(۱) گرچہ اس کو ضعیف قرار دیاگیا ہے، مگر معنے کے لحاظ سے صحیح معلوم ہوتی ہے۔ حاصلِ کلام: یہ کہ یہ مزاحیہ پروگرام اپنے مشتملات کے لحاظ سے بھی اور نتائج وعواقب کے لحاظ سے بھی شریعت کی نظر میں غلط اور نا جائز ہے۔مفید ومعلوماتی پروگرام ٹی- وی پر دیکھے جانے والے پروگراموں میں بعض وہ ہیں ،جو صحیح واقعات ، ------------------------- (۱) دیکھو:روح المعاني : ۲۹/۷۹ (۱) دیکھو: روح المعاني : ۲۹ ؍۷۹