ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
خیر بہ ذریعے شر ! اس لیے یہاں ایک بات اصولی طور پر جان لینا چاہیے ،وہ یہ کہ کسی کام میں جذبہ تو ہو’’ نیک‘‘، مگر اس نیک جذبے کو پورا کرنے کے لیے جو کام کیا جائے ،یا یوں کہیے کہ اس نیک کام کو انجام دینے کے لیے جس کو ذریعہ بنایا جائے ،وہ ہو’’ شَرکی بات ‘‘، تو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ موٹی بات ہے کہ صدقہ کرنے کے لیے کسی کا مال چرانے کی اجازت تو نہیں دی جاسکتی ؟یا شراب سے مال حاصل کرنے کا فتویٰ تو نہیں دیا جا سکتا؟ علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں جو لوگ قمار( یعنی جوا ) کھیلتے تھے ، وہ جوئے کے ذریعے جیتا ہوا سارا مال فقرا اور محتاجوں کو دے دیا کرتے تھے اور اپنے کام میں نہیں لاتے تھے۔(۱) مگر اس کے باوجود قرآن نے جوے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے اور اس کو شیطانی حرکت قرار دیا ہے ،غور کرنے کی بات ہے کہ جب جوے سے یہ نیک کام متعلق تھا کہ فقرا ومساکین کی مدد ونصرت ہوتی تھی، جو کہ ایک خیر وبھلائی ہے، تو پھر اس سے اسلام میں منع کیوں کیا گیا ؟اس کا جواب یہی ہے کہ اس سے اس لیے منع کیا گیا کہ یہ’’ خیر بہ ذریعے شر ‘‘ہے اور اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ۔ اسی طرح اس پر غور کرنا چاہیے کہ اسلام ا ور دین کی اشاعت وتبلیغ ،ٹی-وی کے ذریعے کی جائے گی، تو ظاہر ہے کہ وہ مفاسد وخرابیاں ضرور رونما ہوں گی، جن کا ذکر اوپر ہوا ہے اور یہ بات اوپر معلوم ہو چکی ہے کہ ٹی- وی کی صورتیں تصویر کے حکم میں ہیں ، جو کہ اسلام میں حرام ہے، تو اس خیر وبھلائی کو ان مفاسد اور خرابیوں ------------------------- (۱) روح المعاني : ۲/۱۱۴ ،تفسیر قرطبي: ۳ /۵۷