ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
تعالیٰ سے روحانی طور پر رہنمائی چاہی جاتی ہے ، شریعت نے اس کے لیے ایک دعا بھی بتائی ہے اور اس کی نماز بھی بتائی ہے۔ حضرت جابر صسے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں تمام (جائز و مباح) امور میں اس طرح استخارے کی تعلیم دیتے تھے، جیسے قرآن کریم کی سورت سکھایا کرتے تھے ، فرماتے تھے کہ جب بھی تم لوگوں میں سے کسی کو کسی کام کا ارادہ ہو، تو اولا ًدو رکعت نفل نماز پڑھے، پھر یہ دعا پڑھے اور دعا میں اپنی حاجت کو ذکر کرے: »اَللّٰھُمَّ إِنِّي اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ؛ فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَ تَعْلَمُ وَلَا أعْلَمُ وَأنتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔ اَللّٰہُمَّ إنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أنَّ ھٰذَا الأمْرَ خَیْرٌ لِي فِي دِینِي وَ مَعَاشِي وَ عَاقِبَۃِ أمْرِي [اَوْقال: فِي عَاجِلِ أمْرِي وَ آجِلِہٖ] فَاقْدِرْہُ لِي؛ وَ إنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أنَّ ھٰذَا الأمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِیْنِي وَ مَعَاشِي وَ عَاقِبَۃِ أمْرِي[ أو قال: فِي عَاجِلِ أمْرِي وَ آجِلِہٖ] فَاصْرِفْہُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْہُ وَاقْدِرْ لِيَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ، ثُمَّ رَضِّنِي بِہٖ ۔«(۱) پھر علما نے فرمایا کہ دعا کے بعد جو بات دل میں آئے، اس کو من جانب اللہ سمجھ کر عمل کرے، ان شاء اللہ اسی میں خیر ہوگا ۔(۲) اس سے معلوم ہوا کہ’’ استخارہ‘‘ خالص اسلامی چیز ہے اوراسلام میں س کا ایک طریقہ بھی بتایا گیا ہے اوراس کی حقیقت کسی جائز معاملے میں اللہ تعالیٰ سے خیر کا پہلو چاہنا اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہنا ہے ۔ ------------------------- (۱) البخاري :۵۹۰۳، الترمذي :۴۴۲، أبوداود :۱۳۱۵، ابن ماجہ: ۱۳۷۳، النسائي: ۳۲۰۱ ، أحمد:۱۴۱۸۰ (۲) فتح الباري : ۱۱؍ ۱۸۷،و الأذکار للنووي