معاشرتی آداب و اخلاق ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
وسٹ بکس |
|
’’صراطِ مستقیم‘‘ سے بھٹک گئے ٗان کے نقشِ قدم پرچلنے سے حفاظت کی دعاء مانگیں۔ اس آیت میں غَیْرِ المَغْضُوبِ عَلَیھِم یعنی’’جن پرغضب نازل کیاگیا‘‘سے مرادیہودہیں،جن کے بارے میںقرآن کریم میں متعددمقامات پرغضب اورلعنت کا تذکرہ ہے۔جبکہ الضَّالِّینَ یعنی:’’گمراہوں‘‘سے مرادنصاریٰ ہیں۔ غورطلب بات یہ ہے کہ یہودنے ہمیشہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی نافرمانیاں اوران کی شان میںگستاخیاں کیں ٗان کی تعلیمات سے روگردانی کے مرتکب ہوئے ٗ انہیں ہمیشہ ستایا اورتکلیفیں پہنچائیں ٗ لہٰذا اپنے ان مکروہ جرائم اوراعمالِ بدکی پاداش میں وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے غضب اورلعنت کے حقدارقرارپائے ٗجس میں یقیناکسی حیرت واستعجاب کی کوئی بات نہیں۔ البتہ قابلِ غوربات یہ ہے کہ ’’نصاریٰ‘‘کوکیوں ’’گمراہ ‘‘ قراردیاگیااوران کے دین یاان کے افکارسے دوری وبیزاری اورکنارہ کشی اختیارکرنے کی کیوںتاکیدوتلقین کی گئی …؟ حالانکہ انہوں نے تواپنے نبی(حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کوکبھی کوئی اذیت نہیں پہنچائی،نہ ہی ان کی شان میں کبھی کوئی گستاخی کی،بلکہ اس کے بالکل برعکس انہوں نے تواپنے نبی کی انتہائی عزت کی اوران کے ساتھ ہمیشہ ہی تعظیم وتکریم کارویہ وسلوک روارکھا… اس کے باوجودانہیں کیوں گمراہ قراردیاگیا؟ نبی کی توہین وتحقیراورنافرمانی وروگردانی تویقینابہت بڑی برائی ہے،لیکن نبی کے احترام اورعزت وتکریم میں توکوئی قباحت نہیں،بلکہ یہ چیزتو مطلوب ومقصود ٗبلکہ دین کاحصہ اورجزوِایمان ہے۔توپھرنصاریٰ کوکیوں گمراہ قراردیا گیا اوران کی تقلید ٗیاان کے عقائداورافکاروخیالات کواپنانے سے منع کیاگیا…؟ اس سوال کاجواب یقینایہی ہے کہ نصاریٰ اپنے نبی کی اس تمامترتعظیم وتکریم کے باوجود’’گمراہ‘‘ہی